سورة فاطر - آیت 13

يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

وہ دن میں رات اور رات میں دن کو داخل کرتا ہے، چاند اور سورج کو اسی نے مسخر کر رکھا ہے ہر کوئی وقت مقرر تک چلتا جا رہا ہے، وہی اللہ تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اس کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے پردے کے بھی مالک نہیں ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : میٹھے اور کڑوے پانی، مچھلیوں، کشتیوں اور جوہرات کے ذکر کے بعد رات اور دن کا ذکر کیونکہ رات اور دن بھی قدرت کی بڑی، بڑی نشانیوں میں سے عظیم نشانی ہیں اور اسی سے ہی زندگی کا نظام ترتیب پاتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی بار ذکر ہوا ہے کہ لیل و نہار کی گردش، سورج اور چاند کا آنا جانا ” اللہ“ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں۔ بنیادی طور پر دن اور رات کا تعلق سورج اور چاند کی گردش کے ساتھ ہے۔ سورج اور چاند کے بارے میں سورۃ یٰس میں فرمایا ہے کہ نہ سورج چاند کو پاسکتا ہے اور نہ چاند سورج کے ساتھ مل سکتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ رات اور دن کے آنے، جانے میں سورج کا مرکزی کردار ہے۔ جونہی سورج طلوع ہوتا ہے تو رات کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو رات کا اندھیرا عود کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کا نظام اس طرح بنایا اور چلایا ہے کہ کبھی دن رات پر ایک حد تک غلبہ پاتا ہے اور کبھی رات دن کے ایک حصے کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔ نہ دن رات کے کچھ حصہ پریکدم غلبہ پاتا ہے اور نہ رات یکبارگی دن کو اپنے دامن میں لپیٹتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ایک رفتار اور نظام الاوقات مقرر کر رکھا ہے۔ سائنسدان کی ریسرچ کے مطابق کھربوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج تک لیل ونہار کی آمد ورفت میں خلل واقع نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ مضبوط نظم کے ساتھ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس میں قدرت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انہیں بنانے اور چلانے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ اگر اس کے سوا یا اس کے ساتھ اور کوئی چلانے والے ہوتے تو بالیقین اس نظام میں کوئی نہ کوئی خلل واقع ہوتا۔ کیونکہ اسے چلانے والا ایک ہی الٰہ ہے۔ اس لیے یہ نظام منظم طریقے کے ساتھ جاری و ساری ہے جو قیامت تک اس طرح ہی چلتا رہے گا۔ جہاں تک سورج کی روشنی اور اس کی تپش کے فوائد ہیں اور چاند کی چاندنی اور اس کے فائدے ہیں وہ اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی ان کا شمار نہیں کرسکتا اور یہی حال رات اور دن کے فوائد کا ہے جن سے ہر آدمی مستفید ہوتا ہے۔ اپنی نعمتوں سے مستفید کرنے والا اور لوگوں کی زندگی ترتیب دینے والا صرف ایک اللہ ہے اور وہی لوگوں کا رب اور بادشاہ ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا خیرخواہ اور مددگار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ پکارا جاتا ہے وہ کھجور کی گھٹلی کے پردے کے برابر بھی اختیارات نہیں رکھتے۔” قِطْمِیْرُ“ کھجورکے اس پردے کو کہا جاتا ہے جو اس کی گھٹلی کے درمیان لکیر میں پایا جاتا ہے یہ پردہ اس قدر باریک اور نازک ہوتا ہے کہ اکثر اوقات کھجور کے گودے کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور دیکھنے والے کو دکھائی نہیں دیتاگویا کہ بہت ہی حقیر اور کمزور ہوتا ہے۔ مگر مشرک ان لوگوں کو خدا کی خدائی میں شریک کرتے ہیں جن کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کا مالک ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی نے چاند اور سورج کو مسخر فرمایا ہے۔ 4۔ چاند اور سورج اپنے اپنے وقت اور مدار میں چلے جارہے ہیں۔ 5۔ تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرنیوالا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو کھجور کی گٹھلی کے پردے کے برابر بھی اختیار نہیں دیا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے اپنی بادشاہی میں کسی کو کچھ بھی اختیار نہیں دیا : 1۔ ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ (الحج :41) 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ :20) 3۔ ” اللہ“ پیدا کرتا ہے اور مختار کل ہے دوسروں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (القصص :68) 4۔ قیامت کے دن آسمانوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ ( الزمر :67)