وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَأْتِينَا السَّاعَةُ ۖ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
منکرین کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت کیوں نہیں آرہی ؟ فرما دیں کہ قسم ہے میرے رب کی جو عالم الغیب ہے قیامت تم پر آکر رہے گی ” اللہ“ سے ذرّہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے نہ زمین میں، نہ ذرّے سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی سب کچھ کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے
فہم القرآن: (آیت3سے5) ربط کلام : جس طرح صرف ” اللہ“ ہی جانتا ہے کہ جو کچھ زمین سے نکلتا ہے اور جو اس میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اوپر چڑھتا ہے۔ قیامت کب قائم ہوگی صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے لوگوں کو ایک وقت تک مہلت دے رکھی جس سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے منکرین قیامت اپنی ہٹ دھرمی کی بناء پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے تو پھر اسے کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (ﷺ) کو ارشاد فرمایا کہ آپ انہیں اپنے رب کی قسم اٹھا کر بتلائیں کہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ یہ اعلان اس رب کی طرف سے ہے جس سے زمین و آسمانوں میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہ ہر چھوٹی، بڑی چیز کو جانتا ہے اور اس نے ہر چیز کو لوح محفوظ میں درج کر رکھا ہے۔ کفار کا خیال تھا اور ہے کہ آج تک کروڑوں، اربوں انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوچکے ہیں ان میں آگ میں جل کر مرنے والے بھی ہیں اور پانی میں ڈوب کر جان دینے والے بھی۔ جنہیں مچھلیوں نے کھالیا ان سب کو کیسے زندہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے اور بھی جواب دئیے ہیں۔ یہاں قیامت کے قیام کی ایک عقلی دلیل دی ہے کہ قیامت برپا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ صاحب کردار ایمانداروں کو بہترین جزا دے اور ان کی خطائیں معاف کرے اور ان کو بہترین نعمتوں سے نوازے۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو حقیر جانا اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھا انہیں اذّیت ناک عذاب دے گا۔ منکرین قیامت ہمیشہ سے یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو دوبارہ کس طرح اسے زندہ کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر اس بات کی تردید اور قیامت برپا ہونے کے درجنوں ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ انبیاء کے ذریعے اس کے عملی تجربے پیش کیے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں چار پرندوں کو ذبح کروانے کے بعد انہیں زندہ کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ایک مقتول کا زندہ ہو کر اپنے قاتلوں کا نام بتلانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو زندہ کیا جانا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور ان کا گدھا سو سال کے بعد زندہ کیے گئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا۔ اتنے ٹھوس دلائل اور واضح حقائق پیش کرنے کے باوجود جو لوگ قیام قیامت کو نہیں مانتے انہیں درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے : ﴿وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ﴾[ الانعام :59] ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“ ﴿یٰبُنَیَّ اِنَّھَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِھَا اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ﴾ [ لقمان :16] ” بیٹا کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو۔ کسی چٹان یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ تعالیٰ اسے لے آئے گا۔ کیونکہ وہ نہایت باریک بین اور خبر رکھنے والاہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کی قسم! قیامت ہر صورت برپا ہوگی۔ 2۔ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ 3۔ قیامت اس لیے برپا کی جائے گی تاکہ ایمان داروں کو جزا ملے اور انکار کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ تفسیر بالقرآن: مرنے کے بعد زندہ ہونے کے ثبوت : 1۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن :7) 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام :60) 3۔ ” اللہ“ تمام مردوں کو اٹھائے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام :36) 4۔ قیامت کے دن ” اللہ“ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انہیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: 6تا18) 5۔ موت کے بعد تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (ھود :7) 6۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام :12) 7۔ آپ فرما دیں تمہارے پہلے اور پچھلوں کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ: 47تا50) 8۔ پھر ہم تمہیں تمہاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ:56) 9۔ جس دن تم سب کو جمع ہونے والے دن میں اللہ تعالیٰ جمع کرے گا۔ (التغابن :9) 10۔ جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ:109) 11۔ یہ فیصلہ کا دن ہے ہم نے تم کو اور تم سے پہلوں کو بھی جمع کرلیا ہے۔ (المرسلات :38)