يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی بیویاں حلال کردیں جن کے مہر آپ نے ادا کیے ہیں، اور لونڈیوں میں سے جو آپ کی ملکیت میں آچکی ہیں اور تمہاری چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کردیا ہوا۔ اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے یہ رعایت خالصتاً آپ کے لیے ہے، دوسرے مومنوں کے لیے نہیں، ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدودمقرر کی ہیں، آپ کو مستثنیٰ کیا تاکہ آپ کو تنگی نہ ہو اور اللہ غفورورحیم ہے
فہم القرآن: ربط کلام : جس طرح مومنوں کو حکم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اسی طرح سرور دوعالم کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ بھی اپنی بیویوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ تاہم آپ کو اپنی بیویوں کے بارے میں کچھ رعایت دی گئی ہے تاکہ فریضہ نبوت کی ادائیگی میں گھریلو حالات رکاوٹ نہ بن جائیں۔(الاحزاب:28، 29، 51) 1 ۔مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اس آیت میں نبی اکرم (ﷺ) کی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے ازواجی مسائل: ذکر کیے گئے ہیں۔ جس میں ازواجی زندگی میں نبی (ﷺ) کے امتیازات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں نبی اکرم (ﷺ) کو حق مہر کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اس لیے پہلے وضاحت فرمادی کہ آپ (ﷺ) کے لیے وہ عورتیں بھی حلال ہیں جن کا آپ حق مہرادا کردیں اور آپ کے لیے مال غنیمت میں آنے والی لونڈیاں بھی حلال ہیں۔ حضرت زینب (رض) نبی اکرم (ﷺ) کی پھوپھی زاد بہن تھیں جن کو حضرت زید (رض) نے طلاق دی۔ نبی اکرم (ﷺ) نے وحی آنے پر ان کے ساتھ نکاح کیا لیکن رسومات کے پجاریوں نے اسے پراپیگنڈہ کا ذریعہ بنا کر آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ حالانکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت زینب (رض) کو اپنے حرم میں داخل فرمایا تھا جس کا ذکر اسی سورۃ کی آیت 37میں ہوچکا ہے اب پھر ضروری سمجھا گیا کہ ایک دفعہ پھر وضاحت کردی جائے جس طرح دوسرے مردوں کے لیے یہ رشتے حلال ہیں اسی طرح نبی اکرم (ﷺ) کے لیے بھی یہ رشتے حلال ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر (ﷺ) آپ کے لیے آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں حلال ہیں اور وہ مومن عورت بھی آپ کے لیے حلال ہے جو اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرتی ہے بشرطیکہ آپ اس سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں یہ آپ کے لیے خصوصی رعایت ہے کہ آپ حق مہر کے بغیر کسی مومنہ سے نکاح کرسکتے ہیں۔ البتہ کوئی مومن حق مہر مقرر کیے بغیر نکاح نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں کیا چیز فرض قرار دی ہے۔ آپ (ﷺ) کو حق مہر سے اس لیے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے تاکہ آپ کو کسی قسم کا مالی بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق مہر کی رخصت کے باوجود آپ (ﷺ) نے اپنی تمام بیویوں کا حسب استطاعت حق مہر ادا فرمایا۔ آیت مبارکہ میں حلال رشتوں کی وضاحت کرتے ہوئے آپ (ﷺ) پر یہ شرط عائد فرمائی گئی کہ بے شک یہ عورتیں آپ کے لیے حلال قرار دی گئی ہیں لیکن آپ ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی ہے۔ بے شک انہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو یا آپ کے بعد۔ اس آیت میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ چار بیویوں کی پابندی صرف مومنوں کے لیے ہے نبی اکرم (ﷺ) کو اس تعداد سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ آپ (ﷺ) کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر چار سے زیادہ بیویوں کی ضرورت تھی۔ سبب یہ ہے کہ آپ کے ذمے جو مشن لگایا گیا تھا اس کا تقاضا تھا کہ آپ کے خاندانی تعلقات وسیع تر ہوں تاکہ دین کی دعوت تھوڑے عرصے میں زیادہ سے زیادہ پھیل سکے چناچہ یہی کچھ ہوا کہ آپ کے ازواجی رشتوں کی بنا پر عرب کے بڑے بڑے قبائل میں دین بڑی سرعت سے پھیل گیا۔ مسائل: 1۔ نبی اکرم (ﷺ) پر حق مہر کی پابندی نہ تھی۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) چار بیویوں کی پابندی سے مستثنیٰ تھے۔ 3۔ اس فرمان کے بعد نبی (ﷺ) اس مسلمان عورت سے نکاح نہیں کرسکتے تھے جس نے مدینہ طیّبہ کی طرف ہجرت نہ کی ہو۔ عام مسلمانوں کے لیے یہ پابندی نہ تھی۔ 4۔ مخصوص حالات میں شریعت کی پابندیوں کے ساتھ لونڈی رکھنا جائز ہے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں بیویوں کے حقوق : 1۔ عورتوں کو ان کا حق مہرخوشی سے ادا کیا جائے۔ (النساء :4) 2۔ بیویوں پر بے جا سختی نہ کی جائے۔ (النساء :19) 3۔ بیویوں کو تکلیف نہ دی جائے۔ (الطلاق :6) 4۔ حق زوجیت ادا کیا جائے۔ (النساء :3) 5۔ حق مہر واپس نہیں لینا چاہیے۔ (النساء :20) 6۔ بچے کی وجہ سے ماں کو تکلیف نہ دی جائے۔ (البقرۃ:233) 7۔ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ تم چار بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے توایک بیوی یا ایک لونڈی ہی کافی ہے۔ ( النساء :3) 8۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں نکاح میں ہوں تو سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ (النساء :129) 9۔ طلاق دینے کے بعد جب مدت پوری ہوجائے تو بیوی کو اچھے طریقے سے رخصت کیا جائے یا اچھے انداز سے رکھ لیا جائے۔ (البقرۃ:231)