سورة لقمان - آیت 31

أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت31سے32) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک اور بڑی دلیل جس سے فائدہ اٹھانے کے باوجود لوگ شرک سے توبہ نہیں کرتے۔ قرآن مجید اس بات کی طرف کئی بار توجہ دلاتا ہے کہ سمندروں میں سفر کرنے والے مسافرو! اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھو اور غور کرو کہ یہ تمہارے رب کا کتنا عظیم کرم ہے کہ تم سمندروں میں اس طرح سفر کرتے ہو جیسے خشکی پر۔ اگر غور کرو تو تمہیں احساس ہوگا کہ سمندر کا سفر تمہارے پیدل چلنے سے بھی آسان بنادیا گیا ہے۔ تم بحری جہازوں پر اس طرح بیٹھے سمندر کا نظارہ کرتے اور آپس میں خوش گپیاں مار رہے ہوتے ہو جیسے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہو۔ پھر غور کرو! جس سمندر پر ایک قدم رکھو تو ڈوب جاؤ وہ نہ صرف تمہیں اٹھائے ہوئے ہے بلکہ ٹنوں من بوجھ بھی اپنے آپ پر لادے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں تمہارا خادم بنا ہوا ہے۔ ایک دفعہ پھر توجہ کرو! جو پانی ایک سوئی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا وہ تمہارے سمیت پورے بیڑے کا بوجھ کس طرح اٹھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تمہیں اس لیے دکھاتا ہے تاکہ تم ان پر غور وخوض کرو یقیناً مشکلات پر صبر کرنے اور نعمتوں پر شکر کرنے والے لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صبرو شکر نہ کرنے والوں کی عادت ہے کہ جب انہیں سائبانوں کی طرح موجیں گھیر لیتی ہیں تو وہ اپنے مشکل کشاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک ” اللہ“ کو پکارتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ انہیں نجات دے کر خشکی پرلاتا ہے تو پھر اپنے کفر و شرک پر تکرار اور اصرار کرتے ہیں۔ یہی لوگ عہد توڑنے والے اور ناشکرے ہیں۔ لغت کے اعتبار سے مخلص کا معنٰی چُن لینے یا منتخب کرنے والا، ریاکاری یا دکھلاوا نہ کرنے والا، بات کو کھوٹ سے خالی رکھنے والا ہے۔ اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کیا میں واقعی تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں فرمایا ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔ ( الاعراف :172) مسائل: 1۔ سمندر میں چلنے والے بحری جہاز اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے چلتے ہیں۔ 2۔ سمندر کے سینے پر چلنے والے جہاز اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے۔ 3۔ مصائب پر صبر اور نعمتوں پر شکر کرنے والے لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ 4۔ مشرک مصیبت کے وقت صرف ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے۔ 5۔ مشرک عہد شکنی کرتا ہے۔ 6۔ مشرک مشکل سے نجات پانے کے بعد اپنے شرک پر اصرار کرتا ہے۔ 7۔ مشرک اپنے رب کا ناشکرا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اخلاص کا حکم اور مخلصین کا مقام : 1۔ نبی (ﷺ) کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر :11) 2۔ تمام امتوں کو اخلاص کا حکم۔ (الاعراف :29) 3۔ اخلاص والے مومن ہیں۔ (النساء :146) 4۔ مخلص بندوں پر شیطان قابو نہیں پاسکتا۔ (ص :83) 5۔ پہلے لوگوں کو اخلاص کا حکم۔ (البینۃ:5) 6۔ سب کو خالص اللہ کی عبادت کرنے کا حکم۔ (المومن :65) 7۔ نبی کریم (ﷺ) کو مخلص لوگوں کے ساتھ رہنے کی ہدایت۔ (الکہف :28)