سورة القصص - آیت 38

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَل لِّي صَرْحًا لَّعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور فرعون نے کہا اے اہل دربار ! میں تو اپنے سوا تمہارا کسی کو الٰہ نہیں جانتا۔ اے ہامان اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت بنوا۔ تاکہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں۔ کیونکہ میں موسیٰ کو جھوٹا سمجھتاہوں۔“ (٣٨)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت38سے39) ربط کلام : فرعون کے ظالمانہ رویہ کی انتہا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کے مقابلہ میں فرعون اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگا تو اس نے دیوانے کے بھڑ مارنے کی مانند بھڑ مارتے ہوئے اپنے وزیروں، مشیروں کو کہا کہ میں یہ بات کسی حال میں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ کہ میرے سوا بھی تمھارا کوئی الٰہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بھڑ مارتے ہوئے اپنے دست راست وزیر ہامان کو کہا اے ہامان ! ملک بھر کے بھٹوں میں فی الفور پکی اینٹیں کثیر تعداد میں تیار کروائی ایک فلک بوس ٹاور تیار کیا جائے۔ تاکہ بلند و بالا عمارت پر چڑھ کر دیکھوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا کہاں رہتا ہے۔ کیونکہ مصر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا وجود مجھے نظر نہیں آتا۔ اگر وہ آسمان پر ہے تو میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ سب کچھ لوگوں کی تسلّی کے لیے ہے ورنہ مجھے یقین ہے کہ موسیٰ کذّاب انسان ہے۔ اس قسم کی گفتگو اور ظالمانہ اقدامات کے سبب فرعون اور اس کا لشکر ملک میں بڑے بن بیٹھتے تھے۔ جس کا انھیں کسی صورت استحقاق نہ تھا۔ وہ ظلم اور فخر و غرور میں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ رب ذوالجلال کے حضور کبھی جواب دہ نہ ہوں گے۔ فرعون اور اس کے آباؤ اجداد کئی پشتوں سے قانونی اور سیاسی اختیارات میں اپنے آپ سے کسی کو برتر نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی لوگ اس کے سامنے جھکتے اور سجدہ کرتے تھے جیسا کہ بڑے لوگوں کے سامنے لوگ جھکا کرتے ہیں۔ اسی بات کو ان کی خدائی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرعون کی طرح متکبرانہ بات ماضی قریب کی نام نہاد سپر پاور روس نے کہی تھی۔ روس کے خلا باز جب خلا (Space) میں چاند سے ہو کر آئے تو کہنے لگے کہ ہمیں تو کہیں مسلمانوں کا خدا نہیں ملا۔ یہ کائنات کتنی بڑی ہے؟ اصل حقیقت تو خالق کائنات ہی جانتا ہے۔ درج ذیل معلومات سے اندازہ ہونے میں مدد ملے گی۔ کائنات میں فاصلوں کی پیمائش کے لیے جو اکائی استعمال کی جاتی ہے اسے نوری سال (Light Year) کہتے ہیں یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اس کی مقدار (9.46x10.12kM) ہے۔ جس کہکشاں میں ہمارا نظام شمسی (Solar System) واقع ہے اسے (Milky Way Galaxy) کہتے ہیں۔ اس کا قطر ایک لاکھ نوری سال (10000 Light Years) ہے اس میں لگ بھگ ایک سوبلین ستارے دریافت ہوچکے ہیں۔ Milky way سے اگلی کہکشاں 8 لاکھ نوری سال (800000 Light Years) کے فاصلے پہ واقع ہے ابھی تک بیسیوں ملین کہکشائیں (Tens of Millions Galaxies) دریافت ہوچکی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود ستاروں ( Stars) کی تعداد کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تاہم ان کی تعداد بلین بلین (Billion Billion=1024) سے زیادہ ہے۔ The Guinness encyclopedia of Science یہ بے وقوف ایک نوری سال کے بھی کئی ہزار ویں حصے کا فاصلہ طے کر آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ متکبرانہ اور گستاخانہ بات کرنے والے فرعون کو اللہ تعالیٰ نے سمندر میں ڈبو کر اس کی لاش کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا چھوڑا۔ دور جدید کے متکبرانہ نظام روس کو بھی اللہ تعالیٰ نے تمام جدید ترین ٹیکنالوجی کی دسترس کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر کے دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا ہے۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن) ﴿فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِ﴾ [ الحشر :2] ” اے دانا و بینا نصیحت حاصل کرو۔“ مسائل: 1۔ فرعون نے ہر حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت کو چیلنج کر رکھا تھا۔ 2۔ فرعون کے بعد ہامان سب سے بڑا باغی اور متکبر شخص تھا۔ 3۔ فرعون اور اس کے ساتھی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی پیشی کو یکسر بھول چکے تھے۔ تفسیر بالقرآن: اِلٰہ حقیقی کا مختصر تعارف : 1۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔163) 2۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔171) 3۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ:73) 4۔ فرما دیجیے اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام :19) 5۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل :51) 6۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :60) 7۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :61) 8۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل :62) 9۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل :63) 10۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل :64) 11۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 12۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص :71) 13۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص :72) 14۔ اگر دو الٰہ ہوتے تو فساد ہوجاتا۔ ( الانبیاء :22) 15۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کوئی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص :88)