وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو خوش خبری دیجیے کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں۔ جب وہ پھلوں سے رزق دیے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ وہی ہیں جو ہم اس سے پہلے دیے گئے تھے اور انہیں اس سے ملتے جلتے پھل دیے جائیں گے اور ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قرآن مجید اور نبوت کے بارے میں شک و انکار کرنے والوں کو سخت ترین عذاب کا انتباہ کرنے کے بعد اب ان لوگوں کو کامیابی کی نوید اور پیغام مسرت دیا جا رہا ہے جو ایمان خالص کے ساتھ نیک عمل کرتے ہیں۔ یاد رہے نیکی میں ایمان باللہ کے بعد تین چیزیں لازم ہیں : (1)۔ اخلاصِ نیّت (2)۔ سنت کی اتباع (3)۔ فرائض کی ہمیشہ ادائیگی نوافل میں پہلی دو شرائط لازمی ہیں اور تیسری شرط افضل ہے ضروری نہیں۔ جنت کے پھل شکل و صورت کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہم رنگ اور ہم شکل ہوں گے۔ جنہیں دیکھتے ہی اہل جنت پکار اٹھیں گے کہ ان جیسے پھل تو دنیا میں بھی ہمیں دیے گئے تھے۔ شاید یہ اس لیے ہوگا کہ جنتیوں کو اتنی بھی زحمت اور پریشانی نہ اٹھانا پڑے کہ وہ جنت کے باغات اور پھلوں کے بارے میں ملائکہ یا ایک دوسرے سے پوچھنے کی زحمت اٹھائیں۔ یہ کیا ہے؟ اور وہ کونسا پھل ہے اور اسے کس طرح کھانا ہے؟ لہٰذا پہلے سے ہی ان کی شکلوں اور ناموں سے متعارف اور مانوس ہوں گے تاکہ انہیں ایک ناواقف کی طرح شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ تاہم جنت کے پھل رنگت، حجم، لذت اور خوشبو کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہمارے تصورات سے کہیں بڑھ کر مختلف ہوں گے۔ اسی طرح جنت کی عورتیں جسمانی آلائشوں اور بیماریوں سے پاک، خاوندوں کی نافرمانی سے محفوظ اور سوتنوں کے باہم حسدو رشک سے مبرا ہوں گی۔ ان کے حسن و جمال کے بارے میں رسول اللہ {ﷺ}اس طرح فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِئْتُمْ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ﴾) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار) ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ قرآن مجید نے ” ازواج“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے جوڑا۔ جو اس طرح ہوگا کہ اگر نیک خاتون کا خاوند جہنم رسید ہوا تو اسے دوسرے جنتی کی زوجہ بنا دیا جائے گا اور جس کی بیوی جہنمی ہوگی اسے دنیا کی نیک خاتون عطا کی جائے گی۔ قرآن مجید نے عورتوں کی حیا کے پیش نظر یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے خوبصورت مرد ہوں گے۔ ایسا کہنا قرآن کے اسلوب بیان کے خلاف تھا۔ مرد طبعی طور پر عورت سے نسبتاً کم حیا رکھتا ہے اس لیے فرمایا گیا کہ جنت میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔ یہ اس لیے بھی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کودنیا میں نگران بنایا ہے اور جنت میں بھی ان کو عورتوں پر سردار بنائے گا۔ جنتیوں کو یہ خوشخبری بھی دی جا رہی ہے کہ جنت اور اس کی نعمتیں ان کے لیے ہمیشہ اور جنتیوں کو حیات جاوداں حاصل ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا مائَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِئْتُمْ ﴿وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ﴾) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو : اور سائے ہیں لمبے لمبے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ {رض}عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس {رض}اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ {ﷺ}کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا۔ کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَالَّذِیْنَ عَلٰی آثَارِھِمْ کَأَحْسَنِ کَوْکَبٍ دُرِّیٍّ فِی السَّمَآءِ إِضَآءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍلَاتَبَاغُضَ بَیْنَھُمْ وَلَاتَحَاسُدَ لِکُلِّ امْرِیءٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْقِھِنَّ مِنْ وَرَآءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ ہر ایک جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ مسائل : 1۔ صاحب ایمان اور نیک اعمال کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت، ہرقسم کے پھل، پاکیزہ بیویاں اور جنت میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن : جنت کی ازواج : 1۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : 25تا38) 2۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن :58) 3۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن :70) 4۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن :72) 5- شرم و حیا کی پیکر اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرحمن :56) 6- خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والیاں ہوں گی۔ (الصافات: 48، 49) 7- جنتیوں کی ہم عمر ہوں گی۔ ( ص: 52)