سورة النمل - آیت 62

أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” کون ہے جو مجبور کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور کون مجبور کی تکلیف دور کرتا ہے ؟ اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بنانے والا ہے بہت تھوڑے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں“۔ (٦٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ مزید سوال اور جواب۔ ان آیات میں مشرکین کو سوال و جواب کی صورت میں عقیدہ توحید سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مشرک کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خوشی اور کامیابی کے وقت خالق حقیقی کو بھول جاتا ہے لیکن جب ہر طرف سے مایوس اور لاچار ہوجائے تو پھر اپنے رب کو آواز پر آواز دیتا ہے۔ انسان انتہائی مجبوری اور بے انتہا معذوری کے وقت اپنے رب کو پکارتا ہے تورب کریم اسے ٹھکرانے اور مایوس کرنے کی بجائے اسے اطمینان اور تسلی دیتے ہوئے آواز دیتا ہے : ﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیمُ﴾[ الزمر :53] ” اے نبی ! بتلا دیں کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیے ہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کرنے والا ہے غفور الرّحیم ہے۔“ جب ” اللہ“ ہی لاچار کی دعا سنتا اور وہی اس کی داد رسی کرتا ہے تو پھر انسان کا فرض ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا کرے۔ لیکن مشرک اس قدر ناعاقبت اندیش ہوتا ہے کہ وہ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے زندہ یا مردہ معبودوں کو پکارتا ہے حالانکہ اس کی مشکل کشائی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ لیکن بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرک اس بات پر بھی غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے۔ جس طرح ہر انسان اپنے بڑوں کے بعد ان کی وراثت اور دیگر امور کا جانشین بنتا ہے اسی اصول پر پوری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ آج ایک قوم پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھتی ہے۔ کل اس کی جگہ پر دوسری قوم کا پھر یرا لہرارہا ہوتا ہے۔ یہی صورت حال مختلف ممالک کی ہے کل کسی اور جماعت کی حکومت تھی آج دوسری پارٹی اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ کون چاہتا ہے کہ میں سب کو چھوڑ چھاڑ کر رخت سفر باندھوں ؟ کوئی نہیں سوچتا کہ میں اپنا اقتدار اور اختیار دوسرے کے حوالے کردوں لیکن اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا اچھا یا برا جانشین بناتا ہے۔ بالفاظ دیگر سدا اقتدار اور اختیار صرف اسی کو زیبا ہے لیکن اقتدار اور اختیار کو سب کچھ سمجھنے والے انقلاب زمانہ سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مسائل: مشرک ان تین سوالات کا بھی جواب نہیں دے سکتا۔ 1۔ اللہ تعالیٰ ہی لاچار اور مجبور کی دعاؤں کو سننے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی تکلیف کو دور کرنے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے۔ 4۔ عقیدہ توحید کھلی حقیقت ہونے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اسے قبول نہیں کرتی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : 1۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :60) 2۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :61) 3۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل :62) 4۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل :63) 5۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل :64) 6۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز مین کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 7۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص :71) 8۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص :72) 9۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کوئی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص :88) 10۔ تمھارا الٰہ ایک ہی ہے وہ رحمن، رحیم ہے۔ (البقرۃ:163) 11۔ وہی اکیلا ہی زمین و آسمانوں کا الٰہ ہے۔ ( الزخرف :84)