وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَىٰ بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ
” اگر ہم قرآن کو کسی عجمی پرنازل کردیتے۔ (١٩٨)
فہم القرآن : (آیت 198 سے 201) ربط کلام : قرآن مجید من جانب اللہ ہونے کے مزید دلائل۔ اہل مکہ ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کے بارے میں ایک سے ایک بڑھ کر بہکی ہوئی بات کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر اعتراض کرتے محمد (ﷺ) کسی عربی سے سیکھ کر پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں پڑھ کر ہمیں سنائے دیتا ہے۔ (النحل :103) دوسرے موقع پر خود مطالبہ کرتے یہ قرآن کسی عجمی پر نازل ہونا چاہیے تھا۔ یہ مطالبہ بذات خود ان کی حماقت کی دلیل تھا کیونکہ قرآن مجید عجمی زبان میں ہوتا تو اس کے سمجھنے میں انھیں کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا بالخصوص نزول قرآن کے وقت چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی عرب اَن پڑھ تھے۔ یہاں ان کی بات کا یہ جواب دیا گیا اگر کسی عجمی پر قرآن نازل کیا جاتا اور وہ انھیں قرآن پڑھ کر سناتا تو پھر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ دراصل قرآن مجید کا انکار کرنے والے مجرم ہیں یہ قرآن مجید پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک اذّیت ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ قرآن مجید کے لیے ” سَلَکْنٰہُ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ قرآن مجید اپنی تاثیر کے اعتبار سے مجرموں کے دل میں گھر کرچکا تھا۔ جس وجہ سے وہ علیحدگی میں اس کی تصدیق کرتے لیکن لوگوں کے سامنے اس کا انکار کرتے تھے۔ یعنی کلام پاک کی صداقت تمہارے رگ وپے میں سرایت کرگئی ہے۔ تمہارے دل مان چکے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض اہل علم نے اس کا یہ بھی مفہوم لیا ہے کہ قرآن کی مخالفت کفار کے دل میں رچ بس گئی ہے۔ (حَدّثَنِی مُحَمّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ الزّہْرِیّ أَنّہُ حُدّثَ أَنّ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ، وَأَبَا جَہْلِ بْنَ ہِشَامٍ، وَالْأَخْنَسَ بْنَ شَرِیقِ بْنِ عَمْرِو بْنِ وَہْبٍ الثّقَفِیّ، حَلِیفَ بَنِی زُہْرَۃَ خَرَجُوا لَیْلَۃً لِیَسْتَمِعُوا مِنْ رَسُول اللّہِ (ﷺ)وَہُوَ یُصَلّی مِنْ اللّیْلِ فِی بَیْتِہِ فَأَخَذَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ مَجْلِسًا یَسْتَمِعُ فیہِ وَکُلّ لَا یَعْلَمُ بِمَکَانِ صَاحِبِہِ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوافَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَتَلَاوَمُوا، وَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ لَا تَعُودُوا، فَلَوْ رَآکُمْ بَعْضُ سُفَہَائِکُمْ لَأَوْقَعْتُمْ فِی نَفْسِہِ شَیْئًا، ثُمّ انْصَرَفُوا حَتّی إذَا کَانَتْ اللّیْلَۃُ الثّانِیَۃُ عَادَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ إلَی مَجْلِسِہِ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوا، فَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ مِثْلَ مَا قَالُوا أَوّلَ مَرّۃٍ ثُمّ انْصَرَفُوا حَتّی إذَا کَانَتْ اللّیْلَۃُ الثّالِثَۃُ أَخَذَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ مَجْلِسَہُ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوا، فَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ لَا نَبْرَحُ حَتّی نَتَعَاہَدَ أَلَا نَعُودَ فَتَعَاہَدُوا عَلَی ذَلِکَ ثُمّ تَفَرّقُوا) [ سیرت ابن ہشام : قِصّۃُ اسْتِمَاعِ قُرَیْشٍ إلَی قِرَاءَ ۃِ النّبِیّ (ﷺ) ] ” محمد بن مسلم شہاب زہری بیان کرتے ہیں ان تک یہ بات پہنچی ہے کہ ابو سفیان بن حرب، ابو جہل بن ہشام، اخنس بن شریق بن عمر بن وہب الثقفی، حلیف بن زہرہ ایک رات رسول اللہ (ﷺ) کا قرآن سننے کے لیے نکلے اور آپ رات کو اپنے گھر میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک چھپ کر رسول اللہ (ﷺ) کا قرآن سننے لگا ان میں کوئی دوسرے کو نہیں جانتا تھا۔ وہ رات بھر قرآن سنتے رہے جب وہ واپس ہوئے تو ان کی آپس میں ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور عہد کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے بیوقوفوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ان کے دل میں خرابی واقع ہوگی۔ پھر وہ وہاں سے چل دیے جب دوسری رات ہوئی تو کل کی طرح ہر بندہ اپنی اپنی جگہ پر قرآن سننے کے لیے موجود تھا جب فجر طلوع ہوئی تو جاتے ہوئے راستے میں ان کی پھر ملاقات ہوگئی تو انہوں نے آج بھی ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے وہی باتیں کہیں جو پہلے دن کہہ چکے تھے پھر وہاں سے چل دیے جب تیسری رات ہوئی تو ان میں سے ہر ایک قرآن سننے کے لیے پھر اسی جگہ آ پہنچا جب فجر طلوع ہوئی تو سب نے اپنے گھر کی راہ لی راستے میں ان کی پھر ملاقات ہوگئی تو بعض نے بعض کو کہا ہم قرآن سننے سے باز نہیں آسکتے یہاں تک کہ ہم آپس میں معاہدہ کرلیں کہ ہم دوبارہ کبھی قرآن نہیں سنیں گے۔ تو انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا اور گھر کی راہ لی۔ مسائل : 1۔ ہٹ دھرم آدمی کسی صورت حقائق کا اقرار نہیں کرتا۔ 2۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والے لوگ اس پر بیہودہ قسم کے اعتراض اٹھایا کرتے ہیں۔ 3۔ قرآن مجید کے منکر اذیت ناک عذاب دیکھے بغیر قرآن کی تصدیق نہیں کرتے۔