سورة الشعراء - آیت 15

قَالَ كَلَّا ۖ فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا ۖ إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرمایا ہرگز نہیں ہماری نشانیاں لے کر تم دونوں جاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور سب کچھ سن رہے ہونگے۔ (١٥) ف

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ( آیت 15 سے 22) ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کو ہر قسم کی تسلّی دینے کے بعد فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے اور اسے یہ کہہ کر اپنی رسالت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی کہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ فرعون اپنے آپ کو ” رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی“ کہتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے توحید کا یہ پہلو پیش فرمایا کہ رب العالمین ایک ہے اس کے سوا کوئی اور رب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ کیونکہ آزاد قوم ہی اپنے نفع و نقصان کا ٹھیک طور پر فیصلہ کرسکتی ہے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور مطالبہ پر بات کرنے کی بجائے کم ظرفی اور عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر دو اعتراضات کیے تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ فرعون نے بڑے طمطراق سے کہا ” کیا ہم نے بچپن میں تجھے نہیں پالا اور تو ہمارے پاس کئی سال تک نہیں ٹھہرا رہا ؟ پھر تو نے وہ کام کیا جو تو جانتا ہے۔ اے موسیٰ تو ناشکرا اور ناقدر شناس انسان ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی قسم کی تاویل کرنے کی بجائے پیغمبرانہ انداز کے ساتھ کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ واقعی ہی مجھ سے وہ کام ہوا جس کی طرف تو اشارہ کر رہا ہے۔ لیکنمجھے معلوم نہ تھا کہ یہ شخص معمولی مکہ سے مر جائے گا، اس کے مرنے کے سبب اور تمھارے خوف کی وجہ سے میں یہاں سے بھاگ نکلا اس دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس وضاحت کے ساتھ ہی انھوں نے فرعون کے سامنے یہ سوال رکھا۔ کیا مجھ پر احسان کرنے کا یہ بدلہ ہونا چاہیے کہ میری پوری قوم کو غلام بناکررکھا جائے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اب کی صورت میں ایسا سوال اٹھایا جس کا فرعون کوئی جواب نہ دے سکا۔ یہاں تک کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے سرزد ہونے والے قتل کا معاملہ اٹھانے کی بھی جرأت نہ کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کے خلاف فرعون کوئی کارروائی نہیں کرسکے گا۔ جہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنے بارے میں ” ضَالٌّ“ کا لفظ استعمال کرنے کا تعلق ہے۔” ضآلین“ کا واحد ” ضَالٌّ“ ہے جس کے کئی معانی ہیں اِ ن معنوں میں ایک یہ معنٰی ہے ” کسی معاملے میں بے علم اور بے خبر ہونا۔“ جس بنیاد پر موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ وضاحت فرمائی کہ بے شک وہ آدمی میرے ہاتھ سے مرا ہے لیکن میرا اسے قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ یہ جو کچھ ہوا ہے غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ () ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 ۔اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2۔ احسان جتلانے والا 3 ۔جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔“ مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت دی اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ 2۔ فرعون نے کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات پر اعتراضات اٹھائے۔ 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کھلے الفاظ میں اپنے ہاتھوں ہونے والے قتل کا اقرار کیا۔ 4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ذات پر احسان کا جواب دیتے ہوئے ایسا سوال کیا کہ جس سے فرعون لاجواب ہوگیا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت کے سرفراز فرمایا۔ 6۔ احسان کر کے احسان جتلانا نہیں چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور معجزات عطا فرمائے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر ان کے بھائی ہارون کو نبی بنایا۔ ( طٰہٰ: 29۔30) 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے ان کی زبان اور سینہ کھول دیا۔ ( طٰہٰ: 25تا28) 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس معجزات لے کر آئے مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (العنکبوت :39) 4۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والے معجزے عطا کیے۔ (البقرۃ:53) 5۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب عنایت فرمائی۔ (الانبیاء :48) 6۔ اللہ نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (یونس :75)