سورة الفرقان - آیت 37

وَقَوْمَ نُوحٍ لَّمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آيَةً ۖ وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یہی حال قوم نوح کا ہوا جب انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی ہم نے ان کو غرق کردیا اور انہیں دنیا والوں کے لیے نشان عبرت بنادیا ہم نے ظالموں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ (٣٧)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : قوم موسیٰ کی تباہی کے بعد قوم نوح کے انجام کا مختصر بیان۔ حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمھارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا جب مجسمے رکھنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کی بالواسطہ عبادت اور ان کے حضور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ نوح میں ودّ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام سے جن بتوں کا تذکرہ ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (بخاری : کتاب التفسیر) سورۃ العنکبوت آیت 14میں بیان کیا گیا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورۃ نوح : 5۔ 6میں یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری سر توڑ کوشش کے باوجود قوم شرک اور برائی میں آگے ہی بڑھتی جارہی ہے۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے بڑھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں تو میری مدد فرما۔“ (القمر :10) حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ برا اور کافر ہی ہوگا۔ ( نوح 25تا27) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں۔ جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) انھیں یہی فرماتے کہ آج تم مجھے استہزاء کانشانہ بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ ( ھود : 37تا39) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت 11، 12 ا میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتٰی کہ تنور پھٹ پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار کرنے کی اجازت نہیں۔ (ہود : 40تا42) مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے 15فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ امام طبری سورۃ الحاقۃ آیت 11کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سیلاب اس قدر بے انتہا تھا کہ مشرق سے مغرب تک کوئی جاندار چیز باقی نہ رہی۔ مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کو سمجھایا لیکن قوم نے ان کی تکذیب کی۔ 2۔ قوم کے مطالبہ اور نوح (علیہ السلام) کی بد دعا کے نتیجہ میں ان کی قوم کو سیلاب کے ذریعہ تباہ کردیا گیا۔ 3۔ مغضوب قوموں کی تاریخ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے اذیّت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن: حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے انجام کی ایک جھلک : 1۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم :52) 2۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود :43) 4۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان :37)