سورة المؤمنون - آیت 75

وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اگر ہم ان پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں مبتلا ہیں دور کردیں تو پھر بھی اپنی سرکشی میں ہی بھکے رہیں گے۔ (٧٥)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 75 سے 77) ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کا کردار اور انجام۔ قیامت کا انکار کرنے والا شخص نہ صرف صراط مستقیم سے منحرف ہوجاتا ہے بلکہ اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس پر کرم فرما کر اسے کسی مصیبت سے نجات دے تو وہ اپنے رب کا مطیع اور شکرگزار ہونے کے بجائے سرکشی میں اندھا ہوجاتا ہے۔ جب وہ اپنے گناہوں اور سرکشی میں اندھا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑی مصیبت میں گرفتار کرتا ہے لیکن اپنے گناہوں میں اندھا ہونے کی وجہ سے ایسا شخص اپنے رب کے حضور توبہ کرنے اور گڑگڑانے کے لیے تیار نہیں ہوتا بالآخر اللہ تعالیٰ اس پر شدید عذاب نازل کرتا ہے اس قسم کے لوگ اپنے رب سے بخشش اور رحمت طلب کرنے کی بجائے ناامید ہوجاتے ہیں حتٰی کہ اسی حالت میں انہیں موت آلیتی ہے یہ کسی انسان کی سب سے بڑی بدقسمتی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی انتہا ہوتی ہے۔ کہ اسے مصیبت اور عذاب کے وقت بھی توبہ کی توفیق حاصل نہ ہو۔