سورة المؤمنون - آیت 57

إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” حقیقت میں جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ ( ٥٧)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 57 سے 61) ربط کلام : آخرت سے غافل لوگوں کے مقابلے میں فکر آخرت رکھنے والے لوگوں کے اوصاف۔ اس جہان رنگ و بو میں کردار کے اعتبار سے دو قسم کے انسان ہوا کرتے ہیں ایک وہ ہیں جو اپنے رب سے بے خوف ہو کر زندگی گزارتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو قدم قدم پر سوچتے ہیں اور ہر وقت اپنے رب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں کیونکہ ان کا اپنے رب کی ذات اور اس کے ارشادات پر پوری طرح ایمان ہوتا ہے اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے۔ جب وہ صدقہ وخیرات کرتے ہیں تو ان کے دل فخرو غرور اور نمودونمائش سے بچتے اور ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم نے ہر صورت اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یہی لوگ ہیں جو نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہاں خشیت الٰہی اور ایمان کا ذکر کرنے کے بعد نیک لوگوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے کیونکہ شرک کے پیچھے غیر اللہ پر بھروسہ کرنے کا عقیدہ کارفرما ہوتا ہے اس وجہ سے مشرک کو جس طرح اپنے رب سے ڈرنا اور اس پر ایمان لانا چاہیے۔ نہ وہ اپنے رب پر پوری طرح ایمان رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے دل میں کما حقہ خوف خدا ہوتا ہے جب یہ باتیں مفقود ہوجائیں تو انسان رضائے الٰہی کی خاطر نیکی کے کاموں میں مستعد نہیں رہتا۔ کیونکہ اپنے رب سے بے خوفی کی وجہ سے اس کا دل نیکی میں رغبت نہیں پاتا۔ ایسا آدمی جب کچھ خرچ کرتا ہے تو عام طور پر اس کے دل میں فخر وغرور ہوتا ہے۔ خشیت الٰہی کا عظیم فائدہ : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ () أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ہوں ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا کہ میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ ہواؤں میں اڑا دینا انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کر کے دریافت فرمایا کہ تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے ابھاراتھا؟ وہ کہنے لگا آپ کے ڈر نے ! اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے نیک بندے ہمیشہ اپنے رب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ 2۔ نیک لوگ اپنے رب پر دل کی سچائی اور عمل کی گواہی کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ 3۔ نیک لوگ اپنے رب کے ساتھ کسی حوالے سے شرک نہیں کرتے۔ 4۔ صدقہ وخیرات کرتے وقت نیک لوگوں کے دل لرزاں رہتے ہیں۔ 5۔ نیک لوگ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے والے ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: نیکی کے کاموں میں سبقت کرنا چاہیے : 1۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کی کوشش میں سبقت کرو۔ (الحدید :21) 2۔ نیکی کے حصول میں سبقت کرو۔ (البقرۃ:148) 3۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر :32) 4۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : 10، 11)