أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ
یا آسمان سے بارش کی طرح جس میں اندھیرے گرج‘ اور بجلی ہو۔ موت سے ڈر کر کڑک کی وجہ سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے
فہم القرآن: (آیت 19 سے 20) ربط کلام : دین کے بارے میں دوسری مثال، دین اسلام ایک ابر باراں ہے مگر اس میں منافق کی حالت زار بیان کی گئی ہے۔بارش کی تمثیل کے ساتھ اسلام کی روشنی اور نفاق کی تاریکیوں کا فرق واضح کیا جا رہا ہے۔ جس طرح بارش اوپر سے نازل ہوتی ہے اللہ کا دین بھی آسمانوں سے نازل ہوا ہے۔ اس سے نہایت لطیف انداز میں کفار کے الزام کی تردید ہو رہی ہے کہ دین کسی شخص کے ذہن کی اختراع اور زمین کی پیداوار نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ بارش سے بیک وقت ہر چیز تر و تازہ ہوجاتی ہے ایسے ہی دین اسلام سے دل شاداب‘ کردار میں نکھار اور دنیا میں برکات نازل ہوتی ہیں جیسے بارش میں بسا اوقات اندھیرا اور گرج وچمک بھی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہی دین اسلام اختیار کرنے، اس کے نفاذ سے اس کے متبعین کو دنیا میں فوائد بھی ملتے ہیں اور انہیں امتحانات اور کچھ دینوی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن سچے اور پکے مسلمان ان مشکلات کو قبول کرتے ہوئے آگے ہی بڑھا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا و آخرت میں اپنی منزل مراد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس منافق بارش میں چلنے والے اس مسافر کی طرح ہوتا ہے جو بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے آپ کو بجلی کی چکا چوند روشنی سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے سے نہ روشنی اس سے دور ہو سکتی ہے اور نہ وہ آسمانی بجلی کی چمک کڑک سے بچ سکتا ہے۔ جس طرح ساری دنیا مل کر بھی بارش کو نہیں روک سکتی ایسے ہی منافق اور کفار جتنی چاہیں کوشش کریں نہ یہ اسلام کی روشنی مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی غلبۂ اسلام میں ان کی کوششیں اور سازشیں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ منافق کا کردار یہ ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہو تو منافق مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ مخلص مسلمانوں سے بھی چار قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جوں ہی اس کے مفاد کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس کے قدم جم جاتے ہیں۔ منافقوں کی حرکات اور منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سمع و بصر کی حقیقی صلاحیتیں سلب کرلی ہیں۔ اگر ربِّ ذوالجلال چاہے تو ان کے کان اور آنکھوں کی جسمانی صلاحیتوں کو بھی مسخ کر دے کیونکہ قادر مطلق کی طاقت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں ہے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی {رض}عَنِ النَّبِیِّ {ﷺ}قَالَ مَثَلُ مَابَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْھُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ أَصَابَ أَرْضًا فَکَانَ مِنْھَا نَقِیَّۃٌ قَبِلَتِ الْمَآءَ فَأَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ وَکَانَتْ مِنْھَآ أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَآءَ فَنَفَعَ اللّٰہُ بِھَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا وَأَصَابَتْ مِنْھَا طَائِفَۃٌ أُخْرٰی إِنَّمَا ھِیَ قِیْعَانٌ لَاتُمْسِکُ مَاءً وَلَاتُنْبِتُ کَلَأً فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ وَنَفَعَہٗ مَابَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَّمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا وَلَمْ یَقْبَلْ ھُدَی اللّٰہِ الَّذِی أُرْسِلْتُ بِہٖ) (رواہ البخاری : کتاب العلم، باب فضل من علم) ” حضرت ابوموسیٰ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم {ﷺ}نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس علم اور ہدایت کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال زمین پر مسلسل برسنے والی بارش کی طرح ہے۔ زمین کا جو قطعہ اچھا تھا اس نے اسے قبول کیا۔ اس نے گھاس اور سبزے کو خوب اگایا۔ دوسری زمین سخت تھی پانی جذب ہونے کی بجائے اس پر کھڑارہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے خود پانی پیا اور جانوروں کو پلایا اور پھر اس سے کھیتی باڑی کی جبکہ تیسرا زمین کاٹکڑا چٹیل میدان تھا نہ اس نے پانی جذب کیا اور نہ ہی پانی اس کے اوپر ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر مجھے مبعوث فرمایا اس دین کی فہم حاصل کرنے والے اور اس سے نفع اٹھانے والے کی مثال ایسے ہے کہ اس نے علم سے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور لوگوں کو بھی تعلیم دی۔ دوسری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بے پرواہی سے علم کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی اس بات کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔“ مسائل: 1۔ دین اسلام باران رحمت ہے۔ 2۔ ا سلام پر عمل پیرا ہونے میں آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ 3۔ منافق صرف فائدے کی بنیاد پر اسلام پر عمل کرتا ہے۔ 4۔ منافق کسی آزمائش میں پورا نہیں اترتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو منافقین کے سمع وبصر ختم کردے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت وسطوت رکھنے والاہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کافروں کی گرفت کرنے والاہے۔