سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں اللہ اپنے وعدے کیخلاف ہرگز نہیں کرے گا مگر آپ کے رب کے ہاں ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ (٤٧)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 47 سے 48) ربط کلام : انسان کا دل کا اندھا ہوجائے تو اچھائی کے مقابلے میں برائی اختیار کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس لیے تباہ ہونے والی اقوام اپنے پیغمبروں سے عذاب کا مطالبہ کرتی تھیں۔ سرورِ دو عالم (ﷺ) مشرکین کو بار بار عقیدہ توحید کی دعوت دیتے۔ لیکن وہ اس قدر دل کے اندھے ہوچکے تھے کہ دعوت حق قبول کرنے کی بجائے آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ جس قیامت یا عذاب کی آپ دھمکی دیتے ہیں وہ ہم پر کیوں نازل نہیں ہوتا؟ اس کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ جس عذاب کا تم بار بار مطالبہ کرتے ہو اسے نازل کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ پیغمبر (علیہ السلام) کی زبان سے جس عذاب کا وعدہ کیا جاتا ہے اگر تمھارا یہی حال رہا تو وہ ضرور آکر رہے گا اس کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونے پائے گی۔ البتہ اگر سمجھنا چاہو تو تاریخ کا مطالعہ کرو اور تباہ ہونے والی اقوام کے کھنڈرات دیکھو تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ظالم بستیوں کو ایک مدت تک مہلت دی۔ جب انھوں نے اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر ان پر ایسی گرفت کی کہ وہ دنیا میں عبرت کا نشان بنا دئیے گئے۔ جہاں تک قیامت کا معاملہ ہے اس کا پہلا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اور دوسرا دن تمھارے ایک ہزار سال کی گنتی کے مطابق ہوگا۔ اس دن ہر شخص اپنے رب کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اہل مکہ کا مطالبہ : ﴿وَ اِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتَنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [ الانفال :28] ” اور جب انہوں نے کہا اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے توہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَال النَّبِیُّ () لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَہُ، فَإِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلِ اللَّہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِی ) [ رواہ البخاری : باب تَمَنِّی الْمَرِیضِ الْمَوْتَ] حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی (ﷺ) نے فرمایا کسی تکلیف کی وجہ سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے اگر وہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ یہ دعا کریں۔ اے اللہ! جب تلک میرا زندہ رہنا بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرا فوت ہونا بہتر ہو تو مجھے فوت فرما لینا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا عذاب مانگنے کی بجائے خیر مانگنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ خیر اور عذاب کے بارے میں کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی ظالم بستیوں کو نیست و نابود کیا۔ تفسیر بالقرآن: عذاب میں مبتلا ہونے والی اقوام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام :6) 2۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس :13) 3۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ:5) 4۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ:6) 5۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف :35) 6۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 7۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود :82)