وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
” اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ وہ تمہارے پاس ہر دوردراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔“ (٢٧)
فہم القرآن: ربط کلام : تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اعلانِ حج کا حکم۔ حضرت خلیل (علیہ السلام) تعمیرکعبہ سے فارغ ہوئے اور رب جلیل کے حضور اپنی مناجات پیش کرلیں تو حکم ہوا‘ اے ابراہیم (علیہ السلام) پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور چاروں طرف اعلان کرو کہ اے لوگو! تمہارے رب کا گھر تیار ہوچکا ہے لہٰذا اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہوجاؤ۔ ابراہیم (علیہ السلام) عرض کرنے لگے : اے اللہ! میں کمزور ہوں‘ میری آواز ساری دنیا میں کس طرح پہنچے گی۔ حکم ہوا‘ اے ابراہیم (علیہ السلام) تیرا کام آواز دینا ہے ہمارا کام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ” عَلَیْکَ الإْذْنُ وَعَلَیْنَا الْبَلاَغُ“ علامہ ابن کثیر (رض) نے لکھا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے ابو قیس پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی آپ کی آواز دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچی یہاں تک کہ جن لوگوں کے مقدر میں حج تھا اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز ان کی ماؤں کے رحم تک پہنچا دی ہے۔ حج عبادات کا مرقع، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی ہے جو مقررہ ایام میں متعین اور مقدس مقامات پر ادا ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اور ملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے سالانہ بین الاقوامی سٹیج مہیا کیا ہے تاکہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار، ذاتی اصلاح اور اجتماعی معاملات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جہاں اپنے کردار و گفتار کا جائزہ لینا ہے وہاں ملت کافرہ کے حالات واقعات اور ان کے فکرو عمل پر کڑی نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہی حکمت ہے جس کے لیے سیدنا عمر فاروق (رض) حج کے موقع پر مملکت کے گورنروں اور اعلیٰ حکام کا اجلاس منعقد کرتے اور ان علاقوں کے عمائدین سے وہاں کے حالات و واقعات اور حکام کے طرز عمل کے بارے میں استفسار فرماتے اور موقع پر ہدایات جاری کرتے تھے۔ حج صرف چند مناسک کی ادائیگی اور فقط بڑا اجتماع منعقد کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں تو افکار و اعمال کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا پروگرام دیا گیا ہے اسی کے پیش نظر نبی کریم (ﷺ) نے جب حجاج کرام کو دھکم پیل اور حج کے مقصد سے ہٹتے ہوئے محسوس کیا تو آپ (ﷺ) ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے لوگوں سے فرماتے جارہے تھے : (عَلَیْکُمْ بالسَّکِیْنَۃِ فَإنَّ الْبِرَّ لَیْسَ فِیْ الْاِیْضَاعِ) [ رواہ البخاری : باب أَمْرِ النَّبِیِّ (ﷺ) بِالسَّکِینَۃِ عِنْدَ الإِفَاضَۃِ] ” اے حجاج کرام ! سنجیدگی اور وقار اختیار کیجیے، نیکی اچھلنے کودنے کا نام نہیں۔“ حج شوکت اسلام کے بھرپور مظاہرے کا نام ہے۔ اس لیے اسلام کی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کو اپنے کردار کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔“ حجِ مبرور : ” جناب ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ ارشاد ہوا‘ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھنے والے نے پھر پوچھا اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ اس نے عرض کیا جہاد کے بعد؟ آپ نے ارشاد فرمایا حج مبرور یعنی ایسا حج جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے جس میں فسق وفجور نہ ہو (اور سنت کے مطابق کیا جائے )۔“ [ رواہ البخاری : باب فضل الحج المبرور] حضرت ابوہریرہ (رض) ہی فرماتے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جس نے اللہ کی رضا کے لیے حج کیا۔ اور اس نے دورانِ حج کوئی شہوانی فعل اور فسق وفجور نہ کیا تو وہ ایسے لو ٹے گا گویا اسی دن اس کی والدہ نے اسے جنم دیا ہے۔ [ رواہ البخاری : باب فی فضل حج المبرور] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے اقرع بن حابس تمیمی (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا حج ہر سال فرض کیا گیا ہے آپ خاموش رہے آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا پھر تم اس پر عمل کی طاقت نہ رکھتے۔ حج ایک ہی بار فرض ہے۔“ [ رواہ النسائی : باب وجوب الحج] مسائل: 1۔ تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کا اعلان کرنے کا حکم ہوا۔ 2۔ حج اور زیارت کعبہ کے لیے قیامت تک زمین کے نشیب و فراز سے لوگ پیدل اور اپنی سواریوں پر آتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن: حج کے آداب : 1۔ ان لوگوں پر حج فرض ہے جو حج کے اخراجات اور سفر کی استطاعت رکھتے ہیں۔ (آل عمران :97) 2۔ حج کے مہینے معلوم ہیں لہٰذا حج کے ایام میں گناہ کے کام نہ کیے جائیں۔ (البقرۃ:197) 3۔ اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو۔ (البقرۃ:196) 4۔ حج میں ہر کسی قسم کی بے حیائی، نافرمانی اور جھگڑا کرنے سے بچنا چاہیے۔ ( البقرۃ:197)