إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ
” یاد کرو وہ بات جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیا ہیں جن کا تم اعتکاف کرتے ہو ؟ (٥٢)
فہم القرآن : (آیت 52 سے59) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ نبوت کا پہلا اور مرکزی پیغام ” توحید“ ہے جس بنا پر انہوں نے اپنے باپ اور قوم کے سامنے ” اللہ“ کی توحید پیش فرمائی اور بتوں کی بے ثباتی ثابت کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا لہٰذا سب سے پہلے باپ کے سامنے عقیدہ توحید پیش کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے کہ شرک کا سب سے بڑا مرکز ان کا گھر بنا ہوا ہے۔ لہٰذا حق کا تقاضا تھا کہ پیغامِ حق کی ابتداء اپنے گھرسے کی جاتی۔ چنانچہ مؤثر دلائل اور پوری دل سوزی کے ساتھ توحید کی دعوت پہلے باپ کی خدمت میں پیش فرمائی اور اس کے ساتھ ہی قوم کو سمجھایا کہ ان مورتیوں اور مجسموں کے سامنے کیوں جھکتے اور اعتکاف کرتے ہو ؟ قوم کا پہلا جواب یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح ہی کرتے ہوئے پایا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تم اور تمہارے آباؤ اجداد راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہو۔ قوم کا دوسرا جواب یہ تھا کہ ابراہیم تم اپنی دعوت میں سنجیدہ ہو یا شغل کے طور پر ایسی باتیں کر رہی ہو۔ گویا کہ قوم سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ان کے خداؤں اور آباء واجداد کے طریقۂ عبادت کی کوئی شخص مخالفت کرسکتا ہے۔ اسی لیے پوچھتے ہیں کہ ابراہیم اپنی بات میں سنجیدہ ہو یا شغل کے طور پر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ابراہیم (علیہ السلام) پوری سنجیدگی اور جلالت کے ساتھ فرماتے ہیں کیونکہ نہیں۔ جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ سچ اور حق ہے۔ میرا اور تمہارا وہ رب ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا میں اسی عبادت کی دعوت دیتا ہوں۔ نامعلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کس کس انداز اور کتنی مدت تک اپنے باپ اور قوم کو سمجھاتے رہے۔ طویل عرصہ تک سمجھانے کے باوجود جب قوم سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئی تو آپ نے سوچا کہ اگر دلائل انکی سمجھ میں نہیں آرہے اور یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے اور ان مورتیوں پر مرے جا رہے ہیں تو اب ان کے معبودوں کی عملی طور پرخبر لینا چاہیے۔ تب ڈنکے کی چوٹ کہا اللہ کی قسم ! اب یہ مجسمے میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ ﴿وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ﴾ [ الأنبیاء :57] ” اور اللہ کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں تمہارے بتوں کی ضرور خبر لوں گا۔“ ﴿فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوم فَقَالَ إِنِّی سَقِیمٌ﴾ [ الصّٰفٰت 88، 89]” تاروں کی طرف دیکھا اور کہا میں بیمار ہوں۔“ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ذہین تھے : جتنے بھی نبی اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے وہ اپنے دور کے سب سے ذہین اور فطین انسان تھے۔ دیکھیے ابراہیم (علیہ السلام) کتنے زیرک اور فطین ہیں کہ سب بتوں کو توڑا مگر بڑے کو چھوڑ دیا۔ تاکہ قوم واپس آکر کے دیکھے گی تو اس حادثے پر غور وفکر کرتے ہوئے یقیناً اس کی طرف رجوع کرے گی۔ اگر’’الِیْہِ ‘‘کی ضمیر (اشارہ) بڑے بت کی طرف ہو تو شاید یہ سوچیں کہ بڑے میاں نے کسی بات پر ناراض ہو کر چھوٹوں کا تیاپانچہ کردیا ہے۔ یا کم ازکم ان کے دلوں میں یہ خیال ضرور آئے گا کہ واقعی ابراہیم سچ کہتا تھا کہ یہ سب بے کار ہیں بتوں نے نہ اپنے آپ کو بچایا اور نہ ہی بڑے میاں ابراہیم کا ہاتھ پکڑ سکے۔ اگر ”الِیْہِ“ کا اشارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف ہے تو معنی بالکل صاف ہے کہ جب میرے پاس آئیں گے مجھے مزید بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔ میں کہونگا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے عقیدے کے مطابق بڑے بت سے پوچھو۔ اگر یہ بولتے ہیں تو انکا بڑا تو موجود ہے۔ ” کہنے لگے ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کردیا؟ وہ بڑا ہی ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے ہم نے ان کے خلاف ایک ابراہیم نامی نوجوان کو چیلنج کرتے سنا ہے۔“ فتح مکہ کے موقعہ پر بتوں کو توڑا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ دَخَلَ النَّبِیُّ (ﷺ) مَکَّۃَ وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلَاث مائَۃٍ وَّسِتُّوْنَ نُصُبًا فَجَعَلَ یَطْعَنُھَا بِعُوْدٍ فِیْ یَدِہٖ وَجَعَلَ یَقُوْلُ ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ﴾ الآیۃ) [ رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب ھل تکسر الدنان التی فیھا الخمر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (ﷺ) مکہ میں داخل ہوئے اور کعبے کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے آپ انہیں اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے گراتے اور فرماتے : (حق آ چکا اور باطل بھاگ گیا)۔“ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ اور قوم بتوں کے سامنے مراقبے اور اعتکاف کرتے تھے۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو بتوں کے سامنے مراقبے اور اعتکاف کرنے سے روکا۔ 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا جواب یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح پایا ہے۔ 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑنے کی دھمکی دی اور پھر اس پر عمل کر دکھایا۔ 5۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھرپور جوانی میں یہ کام کیا تھا۔ تفسیر بالقرآن: دعوت توحید کی تحریک میں جوانوں کا کردار : 1۔ وہ کچھ جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہم نے انکی ہدایت میں اضافہ کردیا۔ (الکہف :13) 2۔ ہم نے ایک نوجوان کا تذکرہ سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ (الانبیاء :60) 3۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔ (القصص :14) 4۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم عطا کیا۔ (یوسف :22) 5۔ حضرت موسیٰ پر نوجوانوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا کیونکہ لوگ فرعون سے ڈرتے تھے۔ ( یونس :83)