قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا
” باپ نے کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔“ (٤٦)
فہم القرآن: ربط کلام : باپ کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب۔ غور فرمائیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کس قدر ادب و احترام اور سوز مندی کے ساتھ اپنے والد کو توحید سمجھائی اور بحیثیت نبی اپنی اتباع کی دعوت دی مگر باپ نے کہا کہ میری آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجا۔ ورنہ میں تمھیں پتھر مار مار کر سنگسار کر دوں گا۔ ﴿مَلِیَّا﴾ کا معنی ہے کسی کو ہمیشہ کے لیے دور کردینا ہے۔ ہر معاشرے میں یہ مقولہ ہے کہ اولاد ماں باپ کو چھوڑ سکتی ہے لیکن ماں باپ اولاد کو نہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن مشرک اس قدر سخت مزاج، بداخلاق اور کم ظرف ہوتا ہے کہ توحید قبول کرنا تو درکنا توحید کی دعوت سننے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ مشرکین نے ہمیشہ انبیاء (علیہ السلام) اور توحید کی دعوت دینے والے مبلّغین کے ساتھ یہی روّیہ اختیار کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان (ﷺ) اور آپ کے متبعین کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ مشرکوں نے اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقرباء کے ساتھ مظالم کی انتہا کردی اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ مسائل: 1۔ والد نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔ 2۔ مشرک بڑ امتشدد ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انبیاء (علیہ السلام) اور ایمان والوں کو مشرکوں کی دھمکیاں : 1۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردوں گا بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ (مریم :46) 2۔ مشرکوں کی حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔ (الشعراء :116) 3۔ مشرکوں کی حضرت لوط (علیہ السلام) کو دھمکی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تمھیں شہر بدر کردیں گے۔ (الشعراء :167) 4۔ فرعون کی ایمانداروں کو دھمکیاں کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ (طٰہٰ :71) 5۔ مشرکوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اور تیرے ساتھ ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ (الاعراف :88)