سورة مريم - آیت 41

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اس کتاب میں ابراہیم کا واقعہ بیان کیجیے یقیناً وہ سچے نبی تھے۔“ (٤١)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : تین شخصیات میں قدر مشترک یہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولاد پیدا کرنے کی عمر سے گزر چکے تھے۔ حضرت مریم علیہا السلام کا معاملہ سب کے سامنے ہے کہ وہ کنواری تھیں انہیں بیٹا پیدا ہونے کا تصور بھی نہیں آسکتا تھا۔ اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) اور مریم علیہا السلام کے تذکرہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت، ان کی بے مثال قربانیاں اور عظیم جدوجہد کا تذکرہ کرنے سے پہلے انھیں صدیق کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ نبی تمام کے تمام صدیق ہوتے ہیں مگر ابراہیم (علیہ السلام) کی صداقت سب سے اونچے مقام پر ہے۔ کیونکہ ہر نبی کسی ایک خوبی میں دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) سے ممتازہوا کرتا تھا۔ جس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے، کہ یہ رسول ہیں جنہیں ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت دی (البقرۃ:253)۔ صدیق کے کئی معانی ہیں جن میں امتیازی معنٰی یہ ہے کہ قول و فعل میں یکسانیت ہونے کے ساتھ اس کے دل میں اپنے عقیدہ اور مشن کے بارے میں کسی لچک کا خیال نہ آئے۔ قول و فعل کی یکسانیت کے ساتھ دل کی صداقت کا یہ منفرد مقام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بدرجہ اتم سرفراز فرمایا تھا۔ شاید اس لیے بھی انھیں صدیق کا لقب عطا کیا گیا کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں تین باتیں ایسی کہی تھیں جن کا مفہوم بظاہر الفاظ کے کچھ خلاف دکھائی دیتا ہے اس بنا پر بالواسطہ تردید کی گئی ہے۔ امت کے اکثر اہل علم نے اس روایت کے ان الفاظ کو تعریض اور توریہ پر محمول کیا تاکہ حدیث کی اسناد پر اعتماد بحال رہے اور قرآن و سنت میں تعارض پیدا کیے بغیر خلیل خدا کی صداقت پر آنچ نہ آنے پائے بلکہ اس روایت سے بھی ان کی تائید و تصدیق ہوجائے۔ بعض علماء نے ان الفاظ ” لَمْ یَکْذِبْ اَبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ“ کی حقیقی معنوں میں لیا ہے اور پھر اس کی وضاحت فرمائی ہے جو کہ عنقریب آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ چند علماء ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو جھوٹا کہنے کی بجائے راوی کو جھوٹا کہنا زیادہ آسان اور بہتر ہے۔ ظاہر ہے تمام علماء نے نیک نیتی اور حضرت خلیل کی صداقت کی خاطر یہ انداز اختیار فرمایا ہے نبی اکرم (ﷺ) کے فرمان کے مطابق اجتہاد کرنے والے کو دو میں سے ایک ثواب ضرور مل جائے گا۔ بشرطیکہ نیک نیتی سے یہ کام کیا گیا ہو۔ قرآن مجید کا حضرت خلیل (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر تفصیلی روشنی ڈالنے کا منشا یہ ہے کہ اہل عرب بالعموم اور قریش بالخصوص حضرت والا کی ذات بابرکات کے ساتھ اپنا تعلق بڑے فخریہ انداز میں بیان کرتے اور انکے متبع ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے کہ صرف ہم ہی ملت حنیف کے فدائی اور شیدائی ہیں۔ مشرکین عرب کے علاوہ یہود ونصاری بھی اپنی اپنی جگہ ان کو اپنا پیشوا گردانتے اور مانتے ہیں۔ ﴿قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْامِلَّۃَاِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاوَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [ آل عمران :95] ” آپ اعلان فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ آپ یکسو ہو کر عبادت کرنے والے ابراہیم کے طریقہ کی اتباع کرتے جائیں۔ ابراہیم شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔“ ﴿مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاوَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ [ آل عمران :67] ” ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو یک سو مسلمان تھے اور نہ ہی وہ مشرکین میں سے تھے۔ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صدیقیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ 2۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ لوگوں کے سامنے بیان کرنالازم ہے تفسیر بالقرآن: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ قرآن مجید میں (63) مرتبہ ہوا ہے۔ 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی تھے۔ (مریم :58) 2۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے سے ہی ہدایت نواز رکھا تھا۔ (الانبیاء :51) 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے ہی ایک جماعت تھے۔ (النحل :120) 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔ (التوبۃ:114) 5۔ یقیناً ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، نرم دل اور اللہ تعالیٰ کی رجوع کرنے والے تھے۔ (ھود :75) 6۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے مقتدیٰ ہیں۔ (آل عمران :95)