سورة البقرة - آیت 222

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

لوگ تم سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرمادیں کہ وہ گندگی ہے‘ حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو پاک ہونے پر ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے اجازت دی ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : عورتوں کے متعلقہ مسائل کا بیان جاری ہے۔ سوال وجواب کے حوالے سے سلسلۂ کلام جاری ہے۔ یہاں ازدواجی زندگی کے ایک اہم اور فطری مسئلے کے متعلق پھر ایک سوال کا جواب دیا جارہا ہے کہ حیض کی حالت میں میاں بیوی کے تعلقات کی کیا نوعیت ہونی چاہیے ؟ کیونکہ اس بارے میں لوگ افراط وتفریط کا شکار تھے۔ عیسائی حیض کے ایام میں اپنی بیویوں سے مجامعت جاری رکھتے اور یہودی ان سے اس قدر دور رہتے اور نفرت کرتے کہ بیویوں کے قریب بیٹھنا اور ان کے ساتھ کھانا پینا تو در کنار ان کے برتن اور رہائش بھی الگ کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بے چاری مخصوص ایام میں اپنے معصوم بچوں سے پیار بھی نہ کرسکتی تھی۔ مسئلے کی وضاحت کرنے سے پہلے فرمایا کہ حیض عورت کے لیے ایک تکلیف دہ امر ہے اس سے عورت کے اندرونی نظام میں کچھ منفی اور مثبت تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ میڈیکل کی زبان میں عورت کے جسم کا مخصوص حصہ فلٹرائز ہورہا ہوتا ہے لہٰذا ان ایام میں عورت کے ساتھ مباشرت کرنا مرد اور بیوی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اس لیے تمہیں اس وقت تک صحبت کی غرض سے عورتوں کے قریب نہیں جانا چاہیے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ پاک ہونے سے مراد عورت کا غسل کرنا ہے اور عورت کے غسل کرنے سے پہلے مجامعت جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک باز اور توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ یہاں قرآن مجید نے ﴿لَا تَقْرَبُوْھُنَّ﴾ کے الفاظ استعمال فرمائے ” کہ ان کے قریب نہ جاؤ۔“ جس سے مراد مجامعت کرنا ہے۔ سوال کا جواب دیتے ہوئے آخر میں فرمایا کہ اپنی عورتوں کے پاس جاؤ جس طریقے اور حالت میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت عطا فرمائی ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچنے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ نبی محترم (ﷺ) نے عورتوں کے ساتھ کی جانے والی افراط وتفریط کو ختم کرنے کے لیے اپنی خلوت کو بیان کرنے کی اجازت دی تاکہ لوگ سمجھ جائیں کہ حیض کی حالت میں خاوند کس حد تک تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ 1 ۔(عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِیُّ () مِنْ إِنَآءٍ وَاحِدٍ وَّکِلَانَا جُنُبٌ وَکَانَ یَأْمُرُنِیْ فَأَتَّزِرُ فُیُبَاشِرُنِیْ وَأَنَآ حَآئِضٌ وَکَانَ یُخْرِجُ رَأْسَہٗ إِلَیَّ وَھُوَ مُعْتَکِفٌ فَأَغْسِلُہٗ وَأَنَا حَآئِضٌ) [ روا البخاری : کتاب الحیض، باب مباشرۃ الحیض] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں اور نبی (ﷺ) ایک ہی برتن میں بحالت جنابت غسل کرلیا کرتے۔ آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے ازار باندھنے کے بعد وہ مجھ سے مباشرت کرتے یعنی صرف میرے ساتھ لیٹتے اور میں حائضہ ہوتی۔ آپ اعتکاف کی حالت میں اپنا سر باہر نکالتے اور میں حیض کی حالت میں آپ کا سر مبارک دھو دیتی۔“ 2۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کُنْتُ أَشْرَبُ وَأَنَا حَآئِضٌ ثُمَّ أُنَاوِلُہُ النَّبِیَّ () فَیَضَعُ فَاہُ عَلٰی مَوْضِعِ فِیَّ فَیَشْرَبُ وَأَتَعَرَّقُ الْعَرْقَ وَأَنَا حَآئِضٌ ثُمَّ أُنَاوِلُہُ النَّبِیَّ () فَیَضَعُ فَاہُ عَلیٰ مَوْضِعِ فِیَّ) [ رواہ مسلم : کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجھاوترجیلہ وطھارۃ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں بحالت حیض کوئی چیز پیتی پھر اسی برتن میں نبی کریم (ﷺ) کو دیتی تو آپ اسی جگہ منہ رکھ کر پیتے جہاں سے میں نے پیا ہوتا۔ اور میں حیض کی حالت میں ہڈی سے گوشت نوچتی پھر وہ نبی (ﷺ) کو دیتی تو آپ بھی وہاں ہی منہ لگا لیتے۔“ 3 ۔(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () فِی الَّذِیْ یَأْتِی امْرَأَتَہٗ وَھِیَ حَآئِضٌ قَالَ یَتَصَدَّقُ بِدِیْنَارٍ أَوْ نِصْفِ دِیْنَارٍ)[ رواہ أبو داوٗد : کتاب الطہارۃ، باب فی إتیان الحائض] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی کریم (ﷺ) سے اس شخص کے متعلق بیان فرماتے ہیں جو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں جماع کرتا ہے فرمایا وہ ایک دینا ریا آدھا دینار صدقہ کرے۔“ آج کے حساب سے ایک دینار کی قیمت 158 روپے 85 پیسے ہے۔ مسائل : 1۔ حیض پلیدی اور تکلیف ہے اس میں عورتوں سے الگ رہنا چاہیے۔ 2۔ بیویوں سے مجامعت پاک حالت میں کرنی چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ گناہ اور گندگی سے پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن: صفائی اور پاکی کی فضیلت : 1۔ اللہ تعالیٰ پاک لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ :222) 2۔ نیک لوگ پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں۔ (التوبۃ :108)