سورة مريم - آیت 18

قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيًّا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” مریم نے کہا کہ اگر تو نیک ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کے ساتھ پناہ چاہتی ہوں۔ (١٨)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 18 سے 21) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) نے حجرہ میں وارد ہونے والے انسان سے سختی کے ساتھ پوچھا تم کون ہو؟ میں تجھے رب رحمن کا واسطہ دے کر کہتی ہوں اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔ فرشتہ نے جواب دیا کہ میں آپ کے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ آپ کو پاکباز بیٹے کی خوشخبری دوں۔ حضرت مریم علیہا السلام پہلے سے زیادہ حیران اور سراسیمگی کے عالم میں پوچھتی ہیں کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا ؟ نہ کسی مرد نے مجھے چھوا اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اسی حالت میں تجھے بیٹا عطا کیا جائے گا کیونکہ تیرے رب کا فرمان ہے اس طرح بیٹا عطا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانی ظاہر کرنا چاہتا ہے سمجھ لو کہ یہ کام ہوچکا ہے۔ یہاں روح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے کئی معانی ہیں جن میں ایک معنٰی جبرائیل امین (علیہ السلام) ہے۔ کیونکہ ان کا دوسرا نام روح الامین ہے۔ (الشعراء :193) مسائل: 1۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ کو بتلا دیا گیا تھا کہ تیرے ہاں پاکباز بیٹا پیدا ہوگا۔ 2۔ حضرت مریم علیہا السلام پاکدامن بی بی تھیں اور انھیں زندگی بھر کسی مرد نے نہیں چھوا۔ 3۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بن باپ پیدا فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنی انوکھی قدرت کا ثبوت دیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے لیے بن باپ بیٹا پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن: تخلیق انسان کے طرق : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو بن باپ اور ماں کے پیدا کیا۔ ( ص :70) 2۔ حضرت حوّاماں کی بجائے حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ (النساء :1) 3۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ ( آل عمران :46)