إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا
” جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔ (٣)
فہم القرآن: (آیت 3 سے 4) ربط کلام : حضرت زکریا (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے جو خاص الخاص رحمت فرمائی اس کا ذکر۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی عمر مبارک 120 سال کے قریب ہوچکی تھی اور ان کی زوجۂ مکرمہ 98 سال کے قریب اور جسمانی طور پر اولاد جنم دینے کے قابل نہ تھیں یعنی وہ کلیتاً بانجھ تھیں۔ ان حالات کے باوجود حضرت زکریا (علیہ السلام) ” اللہ“ کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ یہی انبیاء (علیہ السلام) اور نیک لوگوں کا شیوہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا کرتے۔ اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعائیں کیے جا رہے تھے۔ سورۃ آل عمران آیت 37تا 39میں ذکر ہے کہ ایک دن ان کے سامنے عجب واقعہ پیش آیا۔ جب وہ مسجد اقصیٰ کے ایک حجرہ میں اپنی اہلیہ کی بھانجی حضرت مریم جو زکریا (علیہ السلام) کی زیر کفالت تھیں۔ ان کے پاس تشریف لائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معصوم بچی کے پاس ایسے پھل موجود ہیں جن کا موسم نہیں تھا۔ فرمانے لگے۔ مریم ! یہ پھل کہاں سے آئے ؟ حضرت مریم علیہا السلام نے عرض کیا خالو! یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے یہ سنتے ہی زکریا (علیہ السلام) کے دل پر چوٹ لگی جس سے دل کے زخم تازہ ہوئے جذبات کا طلاطم بہہ نکلا اور اسی وقت دبی زبان میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے لگے الٰہی میں بوڑھا ہوں میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں میرے بال سفیدی سے چمک رہے ہیں، میری بیوی بانجھ ہے اس کے باوجود میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوا۔ الٰہی مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔ میرے رب ! بیٹا نیک سیرت اور تیرا پسندیدہ ہونا چاہیے۔ میرے رب! مجھے اپنی جناب سے صالح اولاد عنایت فرما اور تو ہی دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت فرشتے کے ذریعے خوشخبری دی کہ تجھے بیٹا عنایت کیا جاتا ہے۔ جس کا نام یحییٰ ہوگا جو سردار، پاک باز اور نبی ہوگا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے تعجب سے پوچھا یہ بات کس طرح پوری ہوگی ؟ فرشتے نے جواب دیا میں صرف اسی قدر کہہ سکتا ہوں کہ حالات کچھ بھی ہوں تمہارے ہاں ضرور بیٹا ہوگا۔ کیونکہ اللہ کا فیصلہ ہے اس کا فرمان ہے کہ میرے لیے یہ بہت آسان ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی پروردگار کوئی نشانی عطا فرما جس سے بشارت کے ظہور کا علم ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم تین دن تک بات نہ کرسکو صرف اشاروں سے ہی اپنا مطلب ادا کر پاؤ گے۔ اس لیے ان ایام میں اللہ کی تسبیح وتقدیس میں زیادہ مشغول رہنا۔ زکریا (علیہ السلام) کا انداز اور عاجزی اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کا تذکرہ قرآن مجید میں محفوظ کردیا گیا۔ دعا کرنے کے آداب : ﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُیْفَۃً﴾ [ الاعراف :55] ” اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارو۔“ ﴿وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًااِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [ الاعراف :56] ” اللہ کو خوف اور امید سے پکارو یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہوتی ہے۔“ ﴿قُلْ یٰعِبَا دِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾ [ الزمر :53] ” اے پیغمبر (ﷺ) میرے بندوں سے فرما دیجیے جو گناہ کر بیٹھے ہیں اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا یقیناً اللہ تعالیٰ ہی سب گناہوں کو بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔“ دعا کے آداب میں شکرو حمد، درود اور توبہ استغفار کے ساتھ فقیر کی شان اور اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا ہے کہ رب کریم سے مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری درماندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسکے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے لکھا ہے کہ دعا مانگنے والا اس بے بسی اور بے چارگی کا اظہار کرے جس طرح مردہ غساّل کے ہاتھ میں ہو۔ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرَیٰ کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَیَصِیْرُ کَا لْمَیِّتِ فِیْ یَدِ الْغُسَّالِ) [ حجۃ اللّٰہ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت و عظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح بے بس سمجھے جس طرح نہلانے والے کے ہاتھوں میت ہوتی ہے۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ رَبَّکُمْ حَیِیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیِیْ مِنْ عَبْدِہٖ إِذَارَفَعَ یَدَیْہِ اَنْ یَّرُدَّھُمَا صِفْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب الدعاء] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تمہارا رب نہایت ہی مہربان اور بڑا ہی حیا والا ہے۔ بندہ جب اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے۔“ مسائل: 1۔ حضرت زکریا نے بڑی آہستگی کے ساتھ اپنے رب کو پکارا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بوڑھے اور بانجھ عورت کو اولاد عنایت کرسکتا ہے۔ 3۔ دعا یقین اور اعتماد کے ساتھ مسلسل کرنی چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔