قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
” اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔“ (١١٠)
فہم القرآن: ربط کلام : کفار اس لیے بھی رسول اکرم (ﷺ) کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ یہ تو انسانوں میں سے ایک انسان ہے۔ وضاحت کے لیے آپ (ﷺ) کی زبان اطہر سے ہی انھیں سمجھایا اور بتلایا گیا ہے کہ میں نسل انسانی کے اعتبار سے تمہارے جیسا چلنے پھرنے، کھانے، پینے اور اٹھنے، بیٹھنے والا انسان ہوں۔ رسول کریم (ﷺ) سے کفار مختلف قسم کے مطالبات کرتے رہتے تھے کبھی کہتے کہ ہمارے لیے چشمے جاری کیے جائیں۔ کبھی کہتے آپ کے لیے سونے کا گھر ہونا چاہیے۔ اس طرح اوٹ پٹانگ مطالبات کرتے رہتے تھے۔ جس کے جواب میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میں بھی گوشت پوست کا بنا ہوا تمھارے جیسا انسان ہوں۔ انسان ہونے کے حوالے سے جو تمھاری ضروریات اور حاجات ہیں میں ان سے مبّرا نہیں ہوں۔ البتہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے میں اس کا رسول اور بندہ ہوں۔ خدا کی خدائی میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور اختیارات میں خودمختارہے وہ کسی کے تعاون کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا مشکل کشا نہیں۔ جو شخص اپنے رب کی ملاقات پر یقین اور اس کی امید رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ صالح اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو کسی حوالے سے بھی شریک سمجھے اور نہ بنائے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر بھی آپ (ﷺ) اور انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں واضح کیا گیا کہ تمام انبیاء کرام انسان تھے۔ لیکن یہاں تو ﴿قُلْ﴾ کے لفظ کے ساتھ آپ (ﷺ) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ فرمائیں کہ میں بشر ہونے کے ناطے سے تمھارے جیسا انسان ہوں۔ لیکن ستیاناس ہو فرقہ واریت کا کہ جس میں انسان اس قدر اندھا ہوجاتا ہے کہ اسے کوئی دلیل اور حقیقت اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی۔ غور فرمائیں کہ کہاں قرآن مجید اور نبی (ﷺ) کے فرامین اور کہاں ایک مفسر کی دیدہ دلیری۔ جاننا چاہیے کہ پیدائش محمدی تمام افراد انسان کی پیدائش کی طرح نہیں بلکہ افراد عالم میں سے کسی فرد کی پیدائش کے ساتھ نسبت نہیں رکھتی، کیونکہ آنحضرت (ﷺ) باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالیٰ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا ہے ” خُلِقْتُ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ“ کشف صریح سے معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت (ﷺ) کی پیدائش اس امکان سے پیدا ہوئی ہے جو صفات اضافیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور نہ کہ اس امکان سے جو تمام ممکنات عالم میں ثابت ہے۔ ممکنات عالم کے صحیفہ کو خواہ کتنا ہی باریک نظر سے مطالعہ کیا جائے لیکن آنحضرت کا وجود مشہود نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی خلقت وامکان کا منشاء عالم ممکنات میں ہے ہی نہیں، کیونکہ اس عالم سے برتر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا سایہ نہ تھا نیز عالم شہادت میں ہر ایک شخص کا سایہ اس کے وجود کی نسبت زیادہ لطیف ہوتا ہے اور جب جہاں میں ان سے لطیف کوئی نہیں تو پھر ان کا سایہ کیسے متصور ہوسکتا ہے۔“ (ضیاء القرآن : جلد 3، صفحہ59) نبی اکرم (ﷺ) کا بار، بار اقرار کہ میں بشر ہوں : ” سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے نماز پڑھائی تو نماز میں کچھ کمی بیشی ہوگئی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا ” یا رسول اللہ (ﷺ) نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ٗکیا بات ہے لوگوں نے کہا آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں یہ سن کر آپ الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف چہرہ کیا ( سہو کے) دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف چہرہ کر کے فرمایا : اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتا دیتا لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کرلے۔“ [ رواہ البخاری، کتاب الصلوٰۃ : باب التوجہ نحوالقبلۃ] (عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَیَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ وَأَقْضِیَ لَہٗ عَلٰی نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہٗ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شَیْئًا فَلَایَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہٗ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب الحیل، باب إذا غضب جاریۃ فزعم أنھا ماتت ] ” حضرت ام سلمہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم میرے پاس اپنے فیصلے لے کر آتے ہومیں ایک بشر ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تم میں کوئی دوسرے سے دلائل پیش کرنے میں زیادہ مہارت رکھتاہو۔ میں تو اسی بنیاد پر فیصلہ کرتاہوں جو بات سنتا ہوں۔ میں جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں۔ تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوتاہوں۔“ ” سیدنا رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور کی پیوندکاری کرتے تھے آپ نے فرمایا : یہ کیا کرتے ہو؟ صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ لوگوں نے پیوند کاری کرنا چھوڑ دی تو کھجوریں پھل کم لائی۔ صحابہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ (ﷺ) سے عرض کی تو آپ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہوں۔[ مسلم، کتاب الفضائل باب وجوب امتثال] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا۔ میں یہ بھی کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور اسی حال میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔“ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) اور تمام انبیاء (علیہ السلام) انسان تھے وہ بشر ہونے کا اقرار کرتے تھے : 1۔ نوح کی قوم نے کہا کہ ہم تجھے اپنا جیسا بشر تصور کرتے ہیں۔ (ھود :27) 2۔ اگر تم اپنے جیسے بشر کی اطاعت کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ (المومنون :34) 3۔ کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی اطاعت کریں یقیناً یہ تو بڑی گمراہ کن بات ہوگی۔ (القمر :44) 4۔ کفار نے کہا تو تو ہمارے جیسا بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء :186) 5۔ کفار نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمھارے جیسا بشر جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کھاتا ہے۔ (المومنون :33) 6۔ کسی بشر کے لیے لائق نہیں کہ اللہ اسے کتاب و حکمت اور نبوت دے تو وہ لوگوں کو کہتا پھرے کہ میری عبادت کرنے والے بن جاؤ۔ (آل عمران :79) 7۔ تمام انبیاء نے فرمایا کہ اے لوگو! ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں۔ (ابراہیم :11) غور فرمائیں! کفار کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہوسکتا اور کلمہ پڑھنے والے کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا۔