سورة الكهف - آیت 58

وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ يُؤَاخِذُهُم بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَل لَّهُم مَّوْعِدٌ لَّن يَجِدُوا مِن دُونِهِ مَوْئِلًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور آپ کا رب بہت بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے، اگر وہ ان کو ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑے تو یقیناً ان کے لیے جلد عذاب نازل کرے۔ ان کے لیے وعدے کا ایک وقت ہے جس سے بچنے کی وہ ہرگز کوئی جائے پناہ نہیں پائیں گے۔“ (٥٨) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 58 سے 59) ربط کلام : انبیاء سے مذاق کرنے، حقائق سننے اور انہیں تسلیم نہ کرنے کے باوجود لوگوں کو نہیں پکڑتا تو اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی رحیم ہے اس نے مجرموں کی گرفت کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ رب کریم نے اپنے گنہگار بندوں کو نہایت شفقت آمیز الفاظ کے ساتھ تسلی دیتے ہوئے دعوت دی ہے۔ کہ اے نبی (ﷺ) میرے بندوں کو فرمائیں جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیے ہیں کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کرنے والا، نہایت مہربان اور بخشنے والاہے۔ (الزمر :53) اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہوں اور جرائم کی وجہ سے فی الفور گرفت کرے تو کوئی اس کے عذ اب سے نہیں بچ سکتا۔ وہ اپنی رحمت کی وجہ سے گنہگاروں کو بار بار معافی کا موقع اور مہلت دیتا ہے۔ اس نے گنہگاروں کی گرفت کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ مقررہ وقت سے پہلے کسی فرد یا قوم کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔ البتہ جب عذاب کا وقت آجاتا ہے۔ تو پھر کسی کو پناہ نہیں ملتی جس کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو ان کی مقررہ معیاد پر پکڑا تو انہیں اس ہلاکت سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ ﴿وَإِذَا جَاءَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ أَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوءً ا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ﴾[ الانعام :54] ” اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہیں تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پرلازم کرلیا ہے بلاشبہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کربیٹھے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔“ ﴿عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ﴾ [ رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے لوح محفوظ میں تحریر فرمایا کہ ” میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے“ یہ اللہ کے عرش پر تحریر ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحمت فرمانے والا ہے۔ 2۔ اگر اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے جلد مواخذہ کرتا تو لوگ بہت جلد عذاب میں مبتلا ہوجاتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے لیے ایک وقت معین کر رکھا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے بستیوں والوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور قوم کے لیے وقت مقرر کر رکھا ہے : 1۔ ہم نے ان بستیوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا اور ہم نے ہر ایک کی ہلاکت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ (الکھف :59) 2۔ ہر امت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آتا ہے تو اس میں کمی بیشی نہیں کی جاتی۔ (الاعراف :34) 3۔ جب اللہ کا مقرر کیا ہواوقت آجاتا ہے۔ اس میں آگا پیچھا نہیں کیا جاتا۔ (یونس :49) 4۔ جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے۔ اسے موخر نہیں کیا جاتا کاش لوگ جان لیں۔ (نوح :4) 5۔ کفار عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے وقت مقرر کیا ہوانہ ہوتاتوان پر عذاب آجاتا۔ (العنکبوت :29) 6۔ اگر اللہ لوگوں کیظلم کی وجہ سے گرفت کرے تو زمین میں کوئی جاندار نہ بچے۔ (النحل :61)