سورة الكهف - آیت 23

وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور کسی کام کے بارے میں یہ نہ کہیں کہ میں یہ کام کل ضرور کروں گا۔“ (٢٣) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 23 سے 24) ربط کلام : نبی کریم (ﷺ) کو دوسری تلقین۔ سورۃ الکہف کے تعارف میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ اہل مکہ نے مدینہ کے یہودیوں کے پاس ایک وفد بھیجا۔ یہودیوں نے انہیں تین سوالات بتلائے کہ اگر محمد نے ان سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا تو وہ حقیقی نبی ہے۔ اگر ٹھیک جواب نہ دے سکا تو نبوت کے دعوی میں جھوٹا ہے۔ وفد نے مکہ سے واپس آکر آپ (ﷺ) سے یہ سوالات کیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا لیکن کئی دن تک وحی نہ آئی۔ جس پر کفار نے بغلیں بجائیں اور پروپیگنڈہ کیا کہ یہ شخص جھو ٹا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان جاری کیا ” اے نبی! کسی کام کے بارے میں آئندہ اس طرح نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا ایسی بات کہتے وقت ان شاء اللہ کہا کریں۔ جب اپنے رب کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر فوراً ان شاء اللہ کہا کرو۔ اور فرما دیں عنقریب میر ارب میری اس سے زیادہ رہنمائی کرے گا۔“ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اور آپ کے حوالے سے آپ کی امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے۔ مستقبل کے بارے میں کسی سے عہد کرنا ہو تو اس وقت ان شاء اللہ کہہ لینا چاہیے۔ کیونکہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ ﴿وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلَّا أَنْ یَشَاء اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ [ التکویر :29] ” اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ جہانوں کا رب چاہے۔“ ﴿وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلَّا أَنْ یَشَاء اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا﴾[ الدھر :30] ” اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو، بے شک اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔“ ان شاء اللہ کا مقام اور احترام : ان شاء اللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف ان شاء اللہ پڑھنے والا اس لیے پڑھتا ہے کہ میرا کام کوشش کرنا ہے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ گویا کہ وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے کہ کام کرنے کی اصل طاقت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان شاء اللہ کہنے والا اللہ کو گواہ بنا کر دوسرے کو یقین دلاتا ہے کہ میں یہ کام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ لیکن افسوس آج کئی علماء اور مسلمان ان شاء اللہ تاکید کے طور پر نہیں بلکہ تعلیق کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تعلیق کا معنٰی ہے کسی بات کو لٹکاناحالانکہ وعدہ کرتے ہوئے انہیں یقین کی حد تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کرپاؤں گا لیکن وقت ٹالنے کے لیے ان شاء اللہ کہتے ہیں۔ جو شخص اس طرح ان شاء اللہ کہتا ہے اسے خود ہی سوچنا چاہیے کہ وہ کس قدر ظالم ہے ؟ اپنے اور اپنے بھائی پر ظلم کرنے کے ساتھ اللہ کے مقدس نام کو کس نیت کے ساتھ استعمال کررہا ہے۔ مسائل: 1۔ کسی کام کے متعلق یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں کل کروں گا۔ 2۔ جب اللہ تعالیٰ کا نام لینا بھول جائیں تو یا دآنے پر ان شاء اللہ کہنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی حق کی جانب رہنمائی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیے : 1۔ اپنے رب کو یاد کرو جب اس کا نام لینابھول جاؤ۔ (الکھف :24) 2۔ اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور اس کی صبح وشام تسبیح بیان کرو۔ (الاحزاب :41) 3۔ جب نماز پوری کرچکو تو اللہ کا کھڑے، بیٹھ اور لیٹ کر ذکر کرو۔ (النساء :103) 4۔ اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور انکساری سے یاد کرو۔ (الاعراف :205) 5۔ خبردار اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد :28)