سورة الإسراء - آیت 102

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” موسیٰ نے کہا یقیناتو جان چکا ہے کہ انہیں آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں اتارا، یہ سمجھانے کی باتیں ہیں اے فرعون ! میں تجھے ہلاک کیا ہوا سمجھتا ہوں۔“ (١٠٢) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 102 سے 103) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا ذکر جاری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کا الزام سننے کے بعد نہایت حوصلہ اور سمجھ داری کے ساتھ فرمایا۔ اے فرعون ! تو اچھی طرح جانتا ہے کہ جو معجزے میں تیرے سامنے پیش کر رہاہوں وہ میرے اور کسی انسان کے بس کا روگ نہیں۔ یہ تو اس رب کی طرف سے ہیں جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ جس راستے پر تم چل رہے ہو۔ یہ راستہ تیری اور تیری قوم کی تباہی کا راستہ ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے معجزات پیش کرتے ہوئے ” بَصَاءِرُ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا واحد بَصِیْرَۃٌہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ آنکھوں کی بینائی کو بصارت اور دل ودماغ کے ساتھ کسی بات کو جاننے کو بصیرت کہا جاتا ہے۔ بصیرت میں وہ قوت ہے۔ جس سے انسان اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ بصیرت پر جب اقتدار، مال واسباب اور دنیا کے کسی مفاد کا پردہ پڑجائے تو کھلی آنکھوں اور اپنے کانوں سے سننے کے باوجود آدمی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ نشانیوں کو یکے بعد دیگرے دیکھنے اور جاننے کے باوجود انکار کردیا تھا۔ بالآخر اپنی قوم کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی کوشش تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو مصر سے باہر نکال پھینکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ڈبکیاں دے دے کر مارا اور فرعون کی لاش کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھیوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو مصر سے نکال دیا جائے، یہی کوشش اہل مکہ کی تھی کہ اس نبی اور اس کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال دیا جائے۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن ناکام ہوئے اسی طرح نبی (ﷺ) کے دشمن اپنے عزائم میں نامراد ہوئے۔ ﴿فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَإِنَّ کَثِیْرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ اٰیَاتِنَا لَغَافِلُوْنَ [ یونس :92] ” آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو آنے والوں کے لیے عبرت بنے۔ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔“ نبی معظم (ﷺ) کے دشمن بھی ہلاک ہوئے : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ () یَوْمَ بَدْرٍ مَنْ یَنْظُرُ مَا فَعَلَ أَبُو جَہْلٍ فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَوَجَدَہُ قَدْ ضَرَبَہُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّی بَرَدَ، فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ فَقَالَ أَنْتَ أَبَا جَہْلٍ قَالَ وَہَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلَہُ قَوْمُہُ أَوْ قَالَ قَتَلْتُمُوہُ )[ رواہ البخاری : باب قتل ابی جہل] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے بدر کے موقع پر فرمایا ابو جہل کی کون خبرلائے گا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ عبدا للہ بن مسعود (رض) تو انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے بیٹوں نے اسے قتل کردیا ہے۔ انہوں نے اس کی داڑھی سے پکڑ کر پوچھا تو ابوجہل ہے۔ اس نے جواب دیا تم نے بڑے آدمی کو قتل کیا ہے یا کہا تم نے اسے قتل کیا ہے جو قوم کا سردارہے ؟ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑی بڑی نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے۔ 2۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کے قدم اکھاڑنے چاہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن: فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی : 1۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل :103) 2۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الانفال :54) 3۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور دوسروں کو ہم نے غرق کردیا۔ (الشعراء : 66۔67) 4۔ ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف :136) 5۔ ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (البقرۃ:50)