وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ
بعض لوگوں کی دنیاوی باتیں آپ کو خوش کردیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ بناتا ہے، حالانکہ دراصل وہ پرلے درجے کا جھگڑالو ہے
فہم القرآن : (آیت 204 سے 207) ربط کلام : پہلے دو قسم کی سوچ اور فکر کے درمیان فرق بیان ہوا تھا اب مخلص‘ اور غیر مخلص‘ مصلح اور فساد کرنے والے کے درمیان فرق بتلایا گیا ہے۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کیونکہ جب تک انسان دنگہ فساد سے پرہیز نہیں کرتا۔ منیٰ میں قیام اور ایّام تشریق کا مسئلہ بیان کرنے سے پہلے لوگوں کی دو قسم پر مبنی سوچ کا ذکر ہورہا تھا۔ اب دو کرداروں کو بیان کیا جارہا ہے، پہلا کردار دنیا پرست کا ہے جس کے قول وفعل میں اس قدر تضاد ہوتا ہے کہ اس کی زبان میٹھی ہے اور وہ اپنے کردار کی کھوٹ اور گفتگو کی چوری کو چھپانے کے لیے ہر بات پر اللہ تعالیٰ کے مقدّس نام کو استعمال کرتا ہے۔ اس کا کسی سے الجھاؤ ہوجائے تو وہ پرلے درجے کا جھگڑالو ثابت ہوتا ہے اور جب بھی اسے وسائل اور کچھ اقتدار حاصل ہوتا ہے تو اس کی پالیسیاں اور کردار لوگوں کے لیے تباہ کن اور آئندہ نسلوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اس شخص کو جب اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی غلطی کا احساس دلایاجائے تو اصلاح کی بجائے اسے اپنی توہین تصور کرتا ہے۔ ایسے شخص کے فکر وعمل میں خیر کی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ یہ گناہ چھوڑنے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے دنگا فساد کرنے پر اتر آتا ہے۔ اس کے جھوٹے وقار اور تکبر کے خاتمہ کے لیے جہنم کی سزا ہی ہوسکتی ہے۔ اس کا ٹھکانہ دنیا کے بجائے جہنم ہی ہونا چاہیے۔ جس میں اس کے فکرو عمل کی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ رسول کریم (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ جب فاسق وفاجر شخص دنیا سے کوچ کرتا ہے تو روئے زمین پر تمام مخلوق اس کے جانے پر خوشی کا اظہار کرتی ہے یہاں تک کہ زمین اسے دبوچ کر اپنا بوجھ ہلکا کرتی ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق‘ باب سکرات الموت] مفسرین نے اس آیت کی تشریح میں اخنس بن شریک منافق کے کردار کی نشاندہی کی ہے جو آپ (ﷺ) کے پاس حاضر ہوتا تو چکنی چپڑی باتیں کرتے ہوئے اسلام کی تائید کرتا جب اپنے ساتھیوں میں جاتا تو آپ (ﷺ) اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے دوسروں کو سازشوں کے لیے آمادہ کرتا تھا۔ اس کے برعکس ایک مومن کا کردار یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ گفتارکے بجائے کردار کا غازی ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہ صرف اپنی انا کی قربانی دیتا ہے بلکہ وقت آنے پر سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹا کراس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت ابویحییٰ صہیب رومی (رض) کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ جب وہ مدینہ طیبہ کے لیے نکلے ابھی مکہ معظمہ سے تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ کفار نے انہیں آگھیرا۔ حضرت صہیب (رض) نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں تم سے بہتر تیر انداز ہوں اور میرا نشانہ کم ہی خطا ہوا کرتا ہے۔ اگر میری طرف بڑھوگے تو میں تمہیں ایک ایک کرکے نشانہ بناؤں گا۔ جب میرے ترکش سے تیر ختم ہوجائیں گے تو تلوار سے مقابلہ ہوگا۔ لہٰذا میرے راستے میں حائل ہونے کی کوشش نہ کرو۔ اگر تم مال لے کر میرا پیچھا چھوڑنا چاہو تو میرا اتنا سرمایہ میرے مکان کے فلاں کونے میں دفن ہے۔ تم جاکر اسے حاصل کرسکتے ہو۔ کفار خزانے کے لالچ میں واپس پلٹے اور جناب صہیب رومی (رض) کے مدینہ پہنچنے پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی جس میں ایثاروقربانی سے بھر پور کردار کی تعریف کے ساتھ یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے کردار کے لوگوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت فرماتا ہے۔ مسائل : 1۔ چکنی چپڑی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ 2۔ جھوٹی بات پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنانا بڑا گناہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ 4۔ گناہ کو عزت کا باعث سمجھنا جہنم کو ٹھکانہ بنانا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت ہی مشفق و مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ 1۔ اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ (یوسف: 22) (الکہف: 58) 2۔ یہی لوگ اللہ تعالی کی رحمت کے امیدوار ہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ: 218) (المؤمنون: 109) 3۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گایقینا وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (التوبۃ: 99)