سورة الإسراء - آیت 63

قَالَ اذْهَبْ فَمَن تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرمایا جا، ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا یقیناً جہنم تمھاری سزا ہے جو بدترین سزا ہوگی۔“ (٦٣) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 63 سے 65) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ابلیس نے گستاخی اور بغاوت کی حدیں پھیلانگتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اے رب! تیری عزت کی قسم میں چند مخلص لوگوں کے علاوہ سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ رب ذوالجلال نے ارشاد فرمایا۔ ٹھیک ہے۔ لیکن میرا فرمان بھی سچ اور اٹل ہے کہ میں تجھے اور تیری تابعداری کرنے والوں کو جہنم میں داخل کروں گا (صٓ : 82تا85) اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری بارگاہ سے نکل جا۔ تو ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہوا اور تجھ پر قیامت تک پھٹکار برستی رہے گی۔ (الحجر : 34،35) رب ذوالجلال نے یہ بھی ارشاد فرمایا۔ اے ابلیس! تو نکل جا، جو شخص تیری پیروی کرے گا اس کی سزا جہنم ہوگی۔ جس میں سب کو پوری پوری سزا ملے گی۔ اے ابلیس ! تجھے اختیار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے جس کو چاہے اپنی آواز کے ذریعے بہکا لے۔ اپنے پیادوں اور سواروں کے ساتھ چڑھائی کرلے اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا، ان سے وعدہ وعید کر تیرے وعدے مکروفریب کے سوا کچھ نہیں ہوں گے۔ لیکن یاد رکھنا میرے بندوں پر تیرا تسلط قائم نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ تیرا رب ان کا وکیل اور کفیل ہے۔ یہاں شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچ نکلنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے قرار دیا ہے۔ جن کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہوتے ہیں۔ مخلص کا معنیٰ ہے ” وفادار، صاف دل، سچاانسان“ (القاموس) کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ان اوصاف حمیدہ کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں شیطان مستقل طور پر نہیں بہکا سکتا۔ اسی بناء پر شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کہا تھا کہ تیرے مخلص بندوں کے سوا میں سب کو گمراہ کردوں گا۔ (الحجر : 40، صٓ :83) شیطان کو راندہ درگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ﴿وَاسْتَفْزِزْ﴾ کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا معنیٰ ہے ” جوش دلانا، پریشان اور خوفزدہ کرنا، ذلیل سمجھنا اور کرنا“ قرآن مجید کی بلاغت پر قربان جائیں کہ ایک ہی لفظ میں شیطان کے ہتھکنڈوں کو بیان کردیا ہے۔ شیطان، انسان کو جوش دلا کر قتل وغارت کرواتا ہے۔ جذباتی بنا کر بدکاری میں مبتلا کرتا ہے۔ اشتعال دلا کر جو چاہے انسان سے فعل سرزد کروا لیتا ہے۔ اگر جوش سے کام نہ بنتا ہو۔ تو وہ کسی چیز کے چھن جانے کا خوف دلاتا ہے۔ یہ سارے کام انسان سے اس لیے کرواتا ہے کہ شیطان پہلے دن سے انسان کو حقیر سمجھتا ہے اور اس کو ذلیل کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ شیطان گانا بجانا، بے حیائی کی باتوں اور ہر قسم کے دھوکہ فریب سے انسان کو گمراہ کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔” تو اپنے پیادوں اور لشکروں کے ذریعے زور لگا کر لوگوں کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا۔“ کیونکہ ظاہر ہے کہ انسان سواری استعمال کرتا ہے یہاں سے ثابت ہوتا ہے شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شیطان صرف جنات سے ہی نہیں ہوتے بلکہ انسانوں سے بھی ہوتے ہیں۔ جن سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ﴿قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔إِلٰہِ النَّاسِ۔ مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔[ الناس : 1تا6] ” آپ کہہ دیجیے کہ میں لوگوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں، جو لوگوں کا بادشاہ ہے، جو لوگوں کا اِلٰہ ہے، وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو (وسوسہ ڈال کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے وہ جنوں اور انسانوں میں سے ہے۔“ مال میں شریک ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ انسان اپنا مال بے حیائی، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک کی حمایت اور اس کے مرکزوں پر خرچ کرنے کے ساتھ فضول کاموں پر خرچ کرے۔ اولاد میں شریک کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی اولاد دے سکتا ہے یا اولاد دینے میں پیروں، فقیروں اور مزارات کا بھی عمل دخل ہے۔ اولا دکی پیدائش کے بعد انہیں مزارات کے نام منسوب کرنا یا ان کا نام ” پیراں دتہ“ یا کسی بت کے نام پرنام رکھنا۔ اولاد میں شیطان کو شریک کرنا ہے۔ اولاد کو برے کاموں میں لگانا یا اس کو شرک وبدعت اور بے حیائی کا ماحول دینا۔ یہ بھی اولاد میں شیطان کو شریک کرنا ہے۔ ﴿وَقُلْ رَبِّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَات الشَّیَاطِیْنِ۔ وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَحْضُرُوْنِ﴾ [ المومنون : 97۔98] ” کہہ دیجیے اے میرے پروردگار ! میں شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔“ مسائل: 1۔ شیطان کے تابعدار کی سزا جہنم ہے۔ 2۔ شیطان کے پیرو کار کو پوری پوری سزا دی جائے گی۔ 3۔ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک مہلت دی۔ 4۔ شیطان انسان سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے قابو میں نہیں آتے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے : 1۔ میرے بندوں پر شیطان کی کوئی دلیل کار گر نہ ہوگی تیرا رب تجھے کافی ہے۔ (بنی اسرائیل :65) 2۔ اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے، اللہ ولی اور مددگارکافی ہے۔ (النساء :45) 3۔ ان سے اعراض کیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (النساء :132) 4۔ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (النساء :171) 5۔ اللہ پر توکل کیجیے، اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (الاحزاب :3)