سورة الإسراء - آیت 53

وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور میرے بندوں سے فرما دیں وہ اچھی بات کیا کریں بے شک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بلاشبہ شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔“ (٥٣)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : عقیدہ توحید اور آخرت کا انکار کرنے والے لوگ باطل عقیدہ رکھنے کے باوجود اپنے عقیدے کی حمایت میں خواہ مخواہ بحث کرتے اور جھوٹے دلائل دیتے ہیں۔ اکثر اوقات لڑنے جھگڑنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں داعی حق کو صبرو تحمل کے ساتھ بہتر سے بہترین گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ میرے بندوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ وہ لوگوں سے ایسی گفتگو کریں جودل پذیر اور پسندیدہ ہو۔ کیونکہ شیطان اشتعال دلاکر لوگوں کے درمیان فساد برپا کرتا ہے۔ یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ داعی حق جب منکرین حق کو اخلاص اور جان سوزی کے ساتھ حق کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس کے جواب میں منکرین حق جھوٹے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جس سے داعی حق کا نہ صرف دل پسیجتا ہے بلکہ بعض دفعہ غیرتِ حق کی وجہ سے اسکی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف اس کی محنت رائیگاں جاتی ہے۔ بلکہ معاملہ جنگ وجدال تک پہنچ جاتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے یہاں تک حکم دیا گیا کہ مشرکین کے جھوٹے خداؤں کو گالی نہ دو۔ کیونکہ وہ جہالت اور عداوت میں آکر تمہارے سچے رب کو گالی دیں گے۔ (الانعام :108) اس نقصان اور برے حالات سے بچنے کے لیے قرآن مجید مبلغ کو یہ ہدایت کرتا ہے : ﴿ادْعُ إِلَی سَبِیْلِ رَبِّکَ بالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ [ النحل :125] ” اپنے رب کی طرف اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ لوگوں کو بلاؤ۔ اگر کہیں بحث وتکرارکی نوبت آئے تو پھر بھی اچھا انداز اختیار کرو۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں سے اچھی طرح واقف ہے۔“ جو مبلغ اس طریقہ اور انداز سے لوگوں کو حق بات کی طرف بلاتا ہے۔ اس کی ان الفاظ میں تعریف کی گئی ہے۔ دعوت دینے کی فضیلت : ﴿وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾[ حٰم السجدۃ:33] ” اور اس شخص سے بڑھ کر کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے ؟ جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا اور نیک عمل کرتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلُ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئًا وَّمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلَ اٰثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اٰثَامِھِمْ شَیْئًا)[ رواہ مسلم : کتاب العلم، باب مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً أَوْ سَیِّئَۃً وَمَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی أَوْ ضَلاَلَۃٍ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ خیر کی دعوت دینے والے کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا جبکہ ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جس نے برائی کا پرچار کیا وہ اس پر عمل کرنے والے کے برابر گنہگار ہوگا۔ اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔“ مسائل: 1۔ انسان کو ہمیشہ اچھی بات کہنی چاہیے۔ 2۔ شیطان لوگوں میں فساد ڈالتا ہے۔ 3۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ 4۔ داعی کو ہمیشہ اچھا انداز اور بہترین الفاظ استعمال کرنے چاہییں۔ تفسیر بالقرآن: داعیِ حق کے اوصاف : 1۔ میرے بندوں کو فرمادیں کہ اچھی بات کہیں۔ (بنی اسرائیل :53) 2۔ اللہ کے راستہ کی طرف حکمت اور دانائی سے دعوت دیں۔ (النحل :125) 3۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہیں۔ (آل عمران :159) 4۔ آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ (القلم : ٤) ٥۔ اچھائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے۔ (حٰم السجدۃ:34)