سورة الإسراء - آیت 49

وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم نئی تخلیق میں اٹھائے جائیں گے۔“ (٤٩)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 49 سے 52) ربط کلام : قرآن مجید سے دوری اور عقیدہ توحید سے انحراف کا منطقی نتیجہ آخرت کا انکار ہوتا ہے۔ جس بناء پر مکہ کے کفار مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرتے تھے۔ آخرت کے منکرین کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ جب ہم مر کر بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے۔ تو پھر ہمیں کون از سر نو پیدا کرے گا؟ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر آخرت کے منکرین کا عقیدہ یوں بیان کیا گیا ہے۔ کیا انسان غور نہیں کرتا؟ کہ ہم نے اس کو ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ پھر وہ بڑی بے باکی کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے مختلف قسم کی باتیں اور مثالیں بیان کرتا ہے۔ وہ اپنی پیدائش کو بھول کر کہتا ہے کہ جب ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو کون انہیں زندہ کرے گا ؟ اے پیغمبر (ﷺ) ! انھیں فرمائیں کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا وہی سب کو جاننے والا، پیدا کرنے والا ہے۔ (یٰس : 77تا79) سورۃ القیامۃ کی آیت 34تا 40میں انسان کی اس سوچ اور رویہ پر یوں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ” اے انسان ! افسوس ہے تجھ پر افسوس، پھر تجھ پر افسوس کیا جاتا ہے۔ اے انسان ! کیا تو سمجھتا ہے ؟ کہ تجھے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا تو رحم میں داخل ہونے والا منی کا ایک قطرہ نہ تھا ؟ پھر اللہ نے تجھے لوتھڑابنایا۔ پھر اعضاء درست کیے۔ پھر اس سے مرد اور عورت کی قسمیں بنائیں۔ کیا اس خالق کو یہ قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے۔“ ان دلائل کی بنیاد پر نبی معظم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی اور چیز۔ جس کا خیال تمہارے دلوں میں آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھلا ہمیں کون اٹھائے گا ؟ انہیں فرما دیں۔ وہی تمہیں اٹھائے گا جس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ یہ نخوت وتکبر کی وجہ سے سر ہلا کر پوچھتے ہیں کہ کب ایسا ہوگا ؟ انہیں فرما دیں کہ عنقریب یہ ہو کر رہے گا۔ جس دن تمہیں اللہ تعالیٰ آواز دے گا اور تم اس کی تعریف کرتے ہوئے حاضر ہو گے اور اس وقت تم خیال کرو گے کہ دنیا میں بہت ہی تھوڑ اعرصہ رہے تھے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جلال اور دبدبہ دیکھ کر آخرت کے منکروں کو نہ صرف اپنی لایعنی باتیں اور جھوٹے دلائل بھول جائیں گے۔ بلکہ انہیں یہ بھی یاد نہ ہوگا کہ وہ کتنی مدت تک دنیا میں ٹھہرے رہے تھے۔ تفسیر بالقرآن: مرنے کے بعد زندہ ہونے کے دلائل : 1۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل :51) 2۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ:55) 3۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس :4) 4۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر وہ اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم :27) 5۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم :11) 6۔ کیا اللہ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامۃ:40)