سورة النحل - آیت 56

وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَفْتَرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور وہ ان کے لیے جن کے بارے میں وہ نہیں جانتے، اس میں سے ایک حصہ مقرر کرتے ہیں جو ہم نے انہیں دیا ہے۔ اللہ کی قسم ! تم اس کے بارے میں ضرور پوچھے جاؤ گے جو تم جھوٹ باندھتے رہے۔“ (٥٦)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرک اللہ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ اس بنا پر اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے فلاں مزار یا بت کے لیے نذرانہ پیش نہ کیا تو وہ میرا رزق کم کر دے گا۔ اس لیے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کے ساتھ مزارات کے نام پر بھی صدقہ کرتے ہیں تاکہ مدفون بزرگ خوش ہو کر ہمارے رزق میں اضافہ کریں۔ مشرک کا عقیدہ ہوتا ہے کہ جو کچھ مجھے ملا اور مل رہا ہے یہ بزرگوں کی طفیل اور انکی حرمت کے واسطے مل رہا ہے۔ بت پرست بتوں کی طفیل اور واسطے سے اور قبر پرست صاحب قبر کی طفیل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کسی بت یا صاحب قبر کی طفیل نہیں دیتا۔ وہ انسان کو براہ راست وہی کچھ دیتا ہے جو اس نے اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے۔ اس کی عطا نہ کوئی روک سکتا ہے (فاطر :2) اور نہ ہی اس میں کمی وبیشی کرسکتا ہے۔ اگر انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے تو نہ صرف اس میں استغناپیدا ہوتی ہے بلکہ وہ یہ سوچ کر حرام کھانے سے بچ جاتا ہے کہ جو کچھ منعم حقیقی نے میرے مقدر میں لکھ چھوڑا ہے اس میں کوئی زندہ اور مردہ کمی وبیشی نہیں کرسکتا۔ رسول اکرم (ﷺ) ہر نماز کے بعد دعا کرتے تھے کہ الٰہی جو چیز تو عطا کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جسے تو روک لے اسے کوئی عطا نہیں کرسکتا۔ (عَنِ الْمُغِیْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ () کَانَ یَقُوْلُ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوۃٍ مَّکْتُوْبَۃٍ (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اَللّٰھُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ)[ رواہ البخاری : باب الذکر بعد الصلوۃ] ” حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) فرض نماز کے بعد اکثر یہ کلمات ادا فرمایا کرتے تھے۔ صرف ایک اللہ ہی معبود حق ہے۔ اس کا کسی لحاظ سے کوئی شریک نہیں۔ اس کی حکمرانی ہے‘ وہی تعریفات کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھنے والاہے۔ الٰہی جسے تو کوئی چیز عنایت فرمائے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جو چیز تو روک لے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ تیری بڑائی کے مقابلے میں کسی بڑے کی بڑائی نہیں چلتی۔“ اس حقیقت کے باوجود مشرک یہ سمجھتا ہے کہ بت یا فوت شدہ بزرگ میرے رزق میں کمی وبیشی کرسکتے ہیں۔ اس بنا پر وہ بتوں اور مزارات پر جا کر چڑھاوے چڑھاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر سنگین جرم ہے کہ جس کے بارے میں رب ذوالجلال نے اپنی ذات کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے یہ جھوٹا عقیدہ بنا رکھا ہے قیامت کے روز میں انہیں ضرور پوچھوں گا۔ (عَنْ طَارِقِ بْنِ شَہَابٍ (رض) أنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ () قَالَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ قَالُوْا وَکَیْفَ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ مَرَّ رَجُلَانِ عَلٰی قَوْمٍ لَہُمْ صَنَمٌ لَا یَجُوْزُہٗ أحَدٌ حَتّٰی یُقَرِّبَ لَہٗ شَیْئًا، فَقَالُوْا لأحَدِہِمَا قَرِّبْ، قَالَ لَیْسَ عِنْدِیْ شَیْءٌ أُقَرِّبُ، قَالُوْا لَہٗ قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَرَّبَ ذُبَابًا فَخَلُّوْا سَبِیْلَہٗ، فَدَخَلَ النَّارَوَقَالُوْا للآخَرِقَرِّبْ، قَالَ مَا کُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَیْئًا دُوْنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبُوْا عُنَقَہٗ، فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت طارق بن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا ایک آدمی مکھی کا نذرانہ کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگیا اور دوسر امکھی کے نذرانہ کی وجہ سے جہنم میں۔ صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول ! وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا دو آدمی ایک بت پرست قوم کے پاس سے گزرے وہ کسی کو بتوں کے نام نذرانہ دیے بغیر گزرنے نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے ان دونوں میں سے ایک کو کہا نذرانہ دو۔ اس نے کہا میرے پاس نذرانے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا ایک مکھی کا ہی نذرانہ دے دو۔ تو اس نے ایک مکھی کا نذرانہ دے دیا جس سے انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ اس وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوا۔ انہوں نے دوسرے سے بھی نذرانہ دینے کے لیے کہا۔ اس نے جواب دیا میں اللہ کے سوا کسی کے لیے نذرانہ نہیں دوں گا۔ انہوں نے اس کی گردن کاٹ ڈالی تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“ مسائل: 1۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں میں غیر اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں۔ 2۔ قیامت والے دن مشرکین سے ضرور باز پرس ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں غیر اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں : 1۔ جن کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں ان کا حصہ مقرر کرتے ہیں ان چیزوں میں جو ہم نے انہیں دی ہیں۔ (النحل :56) 2۔ اور انہوں نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے کچھ حصہ اللہ کا ٹھہرا رکھا ہے اور کچھ حصہ اپنے شرکا کا مقرر کر رکھا ہے۔ (الانعام :136)