سورة النحل - آیت 41

وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جن لوگوں نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑا، اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، بلاشبہ ہم انہیں دنیا میں ضرور اچھا ٹھکا نہ دیں گے اور البتہ آخرت کا اجر تو سب سے بڑا ہے۔ کاش ! وہ جانتے ہوتے۔“ (٤١) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 41 سے 42) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب انسان آخرت کا منکر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت کا فکری یا عملی طور پر انکار کردے تو وہ ظالم بن جاتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ ظالم لوگ توحید کا عقیدہ رکھنے والے اور صاحب کردار لوگوں پر ظلم کیا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مظلوم ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب سے دنیا معرض وجود میں آئی ہے اسی وقت سے توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ رکھنے والوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے یہاں تک کہ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑاصاحب عزیمت لوگوں نے سب کچھ برداشت کرلیا۔ مگر حق پر قائم اور دائم رہے۔ ان کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور انہیں دنیا میں سرخرو کرنے کے ساتھ اپنی نعمتوں سے نوازتے ہوئے آخرت میں انہیں عظیم اجر سے نوازاجائے گا۔ کاش! لوگ اس حقیقت کو جان جائیں۔ یہ جزا ان لوگوں کو دی جائے گی جنہوں نے اپنے رب پر اعتماد کرتے ہوئے حق پر استقامت اور ظلم پر صبر و حوصلہ اختیار کیا۔ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ہجرت کی تکالیف ومشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں۔ یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے مہاجرین کو اصحاب صدق کے لقب سے نوازا ہے۔ ﴿اَلَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أُولٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ [ الحشر :8] ” اور جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکالے گئے یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں۔“ ﴿وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّلَأَجْرُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ [ النحل : 41،42] ” جو ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کرگئے، ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ جان لیں۔ وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔“ ﴿وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آوَوْا وَّنَصَرُوْا أُولٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ﴾[ الانفال :74] ” اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اللہ کے راستے میں گھربار چھوڑا اور جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ سچے اور ایمان دار ہیں۔ ان ہی کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اشْتَکَی فُقَرَاءُ الْمُہَاجِرِینَ إِلَی رَسُول اللَّہِ () مَا فَضَّلَ اللَّہُ بِہِ عَلَیْہِمْ أَغْنِیَاءَ ہُمْ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ أَلاَ أُبَشِّرُکُمْ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِینَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِہِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ خَمْسِمِائَۃِ عَامٍ )[ رواہ ابن ماجۃ: باب مَنْزِلَۃِ الْفُقَرَاءِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ (ﷺ) سے شکایت کی کہ اغنیا کو ہم پر فضیلت حاصل ہے آپ نے فرمایا اے فقیروں کی جماعت کیا میں تمھیں خوشخبری نہ دے دوں کہ فقیر مومن جنت میں اغنیاء سے ڈھائی سو سال پہلے داخل ہوں گے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دنیا میں بہترین ٹھکانہ ملے گا۔ 2۔ مومنین کو ہجرت کے عوض آخرت میں عظیم اجر سے نوازا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن : صبر اور توکل علی اللہ کے فوائد : 1۔ اللہ صبر اور توکل کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ (النحل : 41۔42) 2۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ (الطلاق :3) 3۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران :159)