سورة النحل - آیت 35

وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شریک بنائے کہتے کہ اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی کی عبادت کرتے اور نہ ہم اللہ کی حرام کردہ چیزوں اس کے سوا کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کہا جو ان سے پہلے تھے تو رسولوں کے ذمہ تو پیغام پہنچادینا ہے۔“ (٣٥)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حق کا انکار کرنے کے لیے مشرکوں کا دوسرابہانہ اور انداز۔ مشرک کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ ہم اور ہمارے آباؤاجداد اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہی اس کے حکم کے سوا کسی چیز کو حرام ٹھہرائیں تو کیا مجال تھی کہ ہم اور ہمارے باپ دادا ایسا کرسکتے؟ در اصل ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ یہاں اس کے دو جواب دیے گئے ہیں ایک یہ کہ ایسی بیہودہ باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے رسولوں کے ذمے کسی کو منوانا نہیں ان کا کام حق پہچانا ہے۔ سو یہ کام رسول اللہ (ﷺ) نے اور آپ سے پہلے انبیاء نے پورے اخلاص اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ پورا کیا ہے۔ آٹھویں پارے میں اسی بات کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ عنقریب مشرک کہیں گے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک کے مرتکب نہ ہوتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہرا تے۔ ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح انبیاء کو جھٹلایا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں ہمارا عذاب آ پہنچا۔ انہیں فرمائیں کیا تمہارے پاس اس دعویٰ کی کوئی دلیل ہے؟ تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو۔ درحقیقت یہ لوگ اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہیں جو سراسر من گھڑت ہیں۔ لہٰذا انہیں فرمائیں اللہ کی دلیل پہنچ چکی جو ہر اعتبار سے غالب ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ہدایت پر اکٹھا کرسکتا تھا۔ (الانعام : 148۔149) مشرکین کے بہانوں میں سے یہ ایک بہانہ ہے جسے وہ ہمیشہ سے پیش کرتے آرہے ہیں۔ جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا الزام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر اپنے ساتھ شرک اور اپنی حرام کردہ چیزوں کو لوگوں کے لیے جائز رکھتا تو اسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب پیغمبر مبعوث کرتا۔ خاکم بدہن کیا اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ ڈرامہ کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ شرک اور حرام خوری کو پسند کرتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کو روکنے کے لیے انبیاء بھیجتا رہا۔ جنہوں نے اس مشن کی خاطر بڑے بڑے دکھ برداشت کیے اور مال و جان کی عظیم قربانیاں پیش کیں۔ کفار کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارا شرک اور حرام خوری پسند ہے یہ اس کی شان میں بہت بڑی گستاخی اور سنگین جرم ہے جس بنا پر انہیں دنیا میں تہس نہس کردیا گیا۔ مسائل: 1۔ مشرکین اپنے شرک کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ 2۔ رسولوں کے ذمہ دین پہنچانا تھا منوانا نہیں۔ تفسیر بالقرآن : حق کے مقابلہ میں کفار اور مشرکین کے بہانے : 1۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل :35) 2۔ عنقریب مشرکین کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ (الانعام :148) 3۔ کفار نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے کوئی چشمہ جاری نہ کر دے۔ (بنی اسرائیل :91) 4۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ (ھود :12) 5۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ:55) 6۔ کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح وشام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ (الفرقان :5)