سورة النحل - آیت 18

وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرو تو انہیں شمار نہ کر پاؤ گے۔ یقیناً اللہ بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (١٨) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 18 سے 21) ربط کلام : بڑی بڑی نعمتوں کے ذکر کے بعد انسان کو احساس دلایا ہے کہ تو اگر اپنے رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو تمہارے لیے ان کا گننا اور شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ آفاقی، زمینی اور بحری نعمتوں کے تذکرے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ یہ چند نعمتوں کا بیان ہوا ہے اگر تم اپنے رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تم سب مل کر اپنے بنائے کمپیوٹرز اور دیگر ذرائع سے بھی ان کا شمار نہیں کرسکتے۔ اس کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقیدۂ توحید ہے۔ جس کی نشاندہی اللہ کی نعمتیں کر رہی ہیں۔ تم اس کی نعمتوں کی ناشکری اور اس کی ذات اور صفات میں اس کی مخلوق کو شریک کرتے ہو لیکن پھر بھی وہ درگزر کرتا اور تم پر رحم فرماتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو تم کھلے عام کہتے اور کرتے ہو اور جو تم اپنے دلوں میں لوگوں سے چھپاتے ہو۔ جن مدفون لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہو۔ بتاؤآسمانوں، زمین، فضاؤں اور سمندروں میں کونسی چیز انہوں نے پیدا کی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس وسیع ترین کائنات میں ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ اب وہ مر چکے تمہاری مدد کس طرح کرسکتے ہیں؟ کیونکہ نہ سنتے ہیں اور نہ حرکت کرسکتے ہیں یہاں تک کہ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ یہ بات ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ ” من دون اللّٰہ“ سے مراد ہر جگہ بت مراد نہیں ہوتے۔ یہاں یہ حقیقت کس قدر کھلے الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ ” من دون اللّٰہ“ سے مراد یہاں بت نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک مکتبۂ فکر کے مفسر نے یہاں بھی ” من دون اللّٰہ“ سے مراد بت ہی لیے ہیں۔ حالانکہ شرک کے پردے ہٹا کر دیکھتے اور معمولی سا غور کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کیا قیامت کے دن پتھروں کو پیدا کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ تو دنیا میں کسی جاہل سے جاہل آدمی کا بھی نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ خدا کے باغی لوگوں اور پتھروں کو جہنم میں پھینکا اور تپایا جائے گا۔ (البقرۃ :24) بالخصوص جن پتھروں کے بت بنائے گئے۔ انہیں تو ضرور جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ ان کے ماننے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جنہیں ہم بزرگوں کا اوتار سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ بناتے تھے وہ بھی ہماری طرح بے بس ہو کر جہنم کا ایندھن بن چکے ہیں۔ ( الانبیاء :98) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ 4۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ 5۔ ” من دون اللّٰہ“ کو اتنا بھی علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : من دون اللّٰہ“ نے کچھ پیدا نہیں کیا : 1۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ (النحل :20) 2۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو؟ جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف :191) 3۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی حالانکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ (الفرقان :3) 4۔ بے شک جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی نہیں پیدا کرسکتے اگرچہ سارے بھی جمع ہوجائیں۔ (الحج :73) 5۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی چیز کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ اپنے خالق خود ہی ہیں؟ (الطور :35) من دون اللہ یعنی ” غیر اللہ“ سے مت مانگو۔ (یونس :106)