سورة النحل - آیت 2

يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” وہ اپنے حکم سے وحی کے ساتھ فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے کہ لوگوں کو متنبہ کرو کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں لہذا مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔“ (٢)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہرقسم کے شرک اور نقص سے مبرا ہونے کی وجہ سے اکیلا ہی معبودِ حق ہے۔ رسول معظم (ﷺ) کی نبوت کا انکار کفار کئی قسم کے اعتراضات اور بہانوں سے کیا کرتے تھے۔ ان میں ایک اعتراض اور بہانہ یہ تھا کہ اللہ نے واقعی عرب سے کسی کو رسول بنانا ہوتا تو وہ طائف یا مکہ کے فلاں امیر زادے کو رسول نامزد کرتا۔ اسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ ایک یتیم اور مالی اعتبار سے کمزور شخص کو اپنا رسول بناتا۔ اس کا جواب دوسرے مقامات پر مختلف الفاظ اور انداز میں دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اعلیٰ اور ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے۔ اس لیے اسے نہ کسی کے مشورے اور تجویز کی حاجت ہے اور نہ ہی وہ کسی مالدار کی دولت کا محتاج ہے کہ اس کے بغیر اس کا پیغام لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔ وہ تو ہر اعتبار سے بے نیاز اور طاقت ور ہے۔ اس لیے اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون سا سینہ اس کی وحی کا متحمل اور کون سے کندھے نبوت کی ذمہ داریاں اٹھا سکتے ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں منتخب کرتا ہے۔ لہٰذا اس نے حضرت محمد (ﷺ) کو اپنے پیغام اور کام کے لیے اس لیے منتخب کیا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں اور بتلائیں کہ اے لوگو! رب ذوالجلال سے ڈر کر اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنا چھوڑ دو۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی معبودِ حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ لہٰذا ایرے غیرے سے ڈرنے کی بجائے صرف اسی سے ڈرتے رہو۔ رسول معظم (ﷺ) پر وحی لانے والا فرشتہ ایک ہی تھا۔ جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ہے۔ مگر یہاں جمع کا لفظ ” الملائکۃ“ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے کہ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں اور اہل عرب تعظیم کی خاطر کسی قوم کے سربراہ کے لیے جمع کا لفظ بھی استعمال کرتے تھے۔ جس کی بنا پر الملک کے بجائے جمع کا لفظ لایا گیا ہے۔ الروح کا لفظ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : 1۔ الروح سے مراد ہر جاندار میں حرکت کرنے والی قوت جسے اردو زبان میں جان اور عربی میں روح کہا جاتا ہے۔ 2۔ قرآن مجید میں روح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ (الشعراء :193) 3۔ روح سے مراد وحی، پیغام اور کسی کے دل میں القا کرنا بھی آیا ہے۔ (النحل : 2۔ المومن : 15۔ الشعراء :194) یہاں اس سے مراد روح نبوت یعنی وحی ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنے حکم کے ساتھ نازل کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کا نزول فرماتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ 4۔ ہر حال میں اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : 1۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو رات کے بعد دن لائے؟ (القصص :71) 2۔ انہوں نے اللہ کے سوا ان کو الٰہ بنا لیا ہے جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الفرقان :3) 3۔ اگر یہ الٰہ ہوتے تو جہنم میں نہ جاتے۔ (الانبیاء :99) 4۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :60) 5۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :62) 6۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے؟ کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے۔ (النمل :63) 7۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل :64)