فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ
” پس اس کا واضح اعلان کردیں جس کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور مشرکوں کی پروا نہ کریں۔“ (٩٤) ”
فہم القرآن : (آیت 94 سے 96) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قرآن مجید کے ٹکڑے کرنے والے لوگوں کو انتباہ کرنے کے بعد رسول اکرم کو کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم۔ اہل مکہ کی شدید مخالفت کے پیش نظر اور ساتھیوں کی کمی کی بنا پر نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں آپ (ﷺ) نے ایک حد تک خفیہ تبلیغ کا طریقہ اپنایا۔ جونہی صحابہ کرام (رض) کی کچھ تعداد بڑھی اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی کٹ حجتیاں اور استہزا کے مقابلے میں آپ کی طرف سے مزاحمت کا اعلان فرمایا اور اس کے ساتھ حکم نازل ہوا کہ اے رسول! جو کچھ آپ کو بیان کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اسے دو ٹوک انداز اور کھلے الفاظ میں لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں اور مشرکین کی مخالفت کو خاطر میں نہ لائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے استہزا اور حجتّ بازیوں کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں عنقریب انہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ مکہ معظمہ کے ابتدائی تین سالوں میں رسول اکرم (ﷺ) عام طور پر دار ارقم میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید بتلایا اور سمجھایا کرتے تھے۔ لیکن توحید ایسی حقیقت ہے جس کے اثرات چھپ نہیں سکتے بشرطیکہ توحید کا اقرار اور ابلاغ کرنے والا اس کے تقاضے سمجھنے اور پورا کرنے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی کوئی شخص مسلمان ہوتا اہل مکہ اس کی زندگی میں واضح انقلاب دیکھتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں میں شریف النفس نوجوان حلقۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر مکہ کے لوگ رسول معظم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو طعن و تشنیع اور استہزا کا نشانہ بنانے لگے۔ اس پر آپ کو براہ راست اور آپ کے حوالے سے بالواسطہ صاحب ایمان لوگوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے طعن و تشنیع اور استہزا کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو عبادت کے لائق اور حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ عنقریب اس کا انجام دیکھیں گے چنانچہ ٹھیک ہجرت کے دوسرے سال غزوۂ بدر میں دنیا نے ان کا انجام دیکھا اور آخرت میں مشرکین کو ہمیشہ ہمیش جہنم کے عذاب میں مبتلا رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) یَرْفَعُہُ أَنَّ اللَّہَ یَقُولُ لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ أَنَّ لَکَ مَا فِی الأَرْضِ مِنْ شَیْءٍ کُنْتَ تَفْتَدِی بِہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ مَا ہُوَ أَہْوَنُ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِی صُلْبِ آدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ بِی فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ )[ رواہ البخاری : باب طلب الکافر الفداء] ” حضرت انس (رض) نبی کریم (ﷺ) سے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے سے پوچھے گا کہ جو کچھ زمین میں ہے تو اس کا فدیہ دے گا؟ وہ ہاں میں جواب دے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے بھی ہلکی چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا لیکن تو نے اس کا انکار کیا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ تمسخر کرنے والوں کے مقابلہ میں اپنے بندوں کے لیے کافی ہے۔ 2۔ مشرک کو مرنے کے بعد اس کے عقیدہ کے برے نتائج کا پتہ چل جائے گا۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) اور مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کے احکام سنا دینے کا حکم دیا گیا۔ 4۔ آپ (ﷺ) اور مسلمانوں کو مشرکوں سے اعراض کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہیں : 1۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون :171) 2۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نا پکا رو وگرنہ عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ (الشعراء :213) 3۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نا پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہی (القصص :88) 4۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :60) 5۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل :62) 6۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے؟ کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے۔ (النمل :63) 7۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا کون ہے؟ کیا اللہ کیساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل :64)