سورة الرعد - آیت 26

اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کرتا اور تنگ کرتا ہے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے، حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں معمولی فائدہ کے سوا کچھ نہیں۔“ (٢٦)

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد شکنی اور باہمی تعلقات کو توڑنے کی سب سے بڑی وجہ دنیا پرستی ہے۔ حالانکہ رزق کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ منکرین حق جس دنیا پر اتراتے اور جس کی خاطر اپنے رب کو فراموش اور لوگوں سے عہد شکنی کرتے ہیں اگر دنیا کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ آخرت کے مقابلے میں قلیل اور عارضی ہے۔ جس دنیا کی خاطر بدمعاملگی اور عہد شکنی کرتے ہیں۔ غور کریں کہ کیا رزق کی فراوانی اور اسباب کی کشادگی انسان کی صلاحیتوں کے بدولت ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت کا نتیجہ ہے؟ رزق کی فرادانی اور اسباب کی وسعت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے نوازتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ انسان کو تلاش رزق کا حکم ضرور ہے مگر رزق کا انحصارصرف انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق کا دار ومدار انسان کی محنت پر ہوتا تو دنیا میں کوئی ہنرمند غریب نہ ہوتا اور کوئی لینڈلارڈ مقروض نہ ہوتا، نہ ہی کار خانے دار دیوالیہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا صرف ایک اللہ ہے۔ اس نے اپنی حکمت، تقسیم اور لوگوں کے تعلقات کو مربوط رکھنے کے لیے رزق کی تقسیم اس طرح کر رکھی ہے کہ ایک شخص اپنی روزی کے لیے کئی انسانوں کے تعاون کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ جس بنا پر لوگ ایک دوسرے کی روزی میں معاون بنتے ہیں۔ کار خانے دار کو دیکھیں کہ وہ کتنے لوگوں کے رزق کا وسیلہ بنتا ہے۔ یہی صورت حال زمیندار کی ہے کہ بظاہر وہ اپنی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ درجنوں گھرانوں، سینکڑوں جانوروں اور ہزاروں کیڑے مکوڑوں کی روزی کا وسیلہ بنتا ہے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ () بِذِی الْحُلَیْفَۃِ فَإِذَا ہُوَ بِشَاۃٍ مَّیِّتَۃٍ شَآئِلَۃٍ بِرِجْلِہَا فَقَالَ أَتُرَوْنَ ہٰذِہٖ ہَیِّنَۃً عَلٰی صَاحِبِہَا فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ہٰذِہِ عَلَی صَاحِبِہَا وَلَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْہَا قَطْرَۃً أَبَدًا )[ سنن ابن ماجہ : بَابُ مَثَلِ الدُّنَّیَا] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں ہم رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ ذوالحلیفہ کے مقام پر تھے جبکہ ایک مری ہوئی بکری جس کی ٹانگیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ مردہ بکری اس کے مالک کے لیے حقیر ترین ہے۔ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے دنیا اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اگر دنیا کی وقعت اللہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللہ کسی کافر کو ایک قطرہ پانی کا نہ دیتا۔“ (عَنْ أَبِیْ وَائِلٍ (رض) عَنْ عَلَیٍّ (رض) أَنَّ مَکَاتِبَا جَاءَ ہٗ فَقَالَ إِنِّیْ قَدْ عَجَزْتُ عَنِ کِتَابَتِیْ فَأَعِنِّیْ قَالَ أَلاَّ أُعَلَّمُکً کَلِمَاتِ عَلَمَّنِیِِْہُنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لَوْ کَانَ عَلَیْکَ مِثْلَ جَبْلِ ثَبَیْرٍ دَیْنًا أَدَاہُ اَللّٰہُ عَنْکَ ؟ قَالَ قُلْ اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَنْ سِوَاکَ ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء النبی (ﷺ) ] ” حضرت ابو وائل (رض) حضرت علی (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مکاتب غلام حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور آکر عرض کی کہ میں اپنی غلامی کی رقم ادا کرنے سے عاجز آگیا ہوں میری مدد کیجیے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسے کلمات نہ سکھلادوں جو مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے سکھلائے تھے اگر تجھ پر ثبیر پہاڑ کے برابر قرض ہوگا تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اتار دے گا۔ فرمایا پڑھا کرو اے اللہ ! مجھے حلال رزق کے ساتھ حرام سے بچا لے اور مجھے اپنے فضل کے ساتھ غنی فرما کر دوسروں سے بے نیاز فرما۔“ مسائل: 1۔ رزق تنگ اور کشادہ کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 2۔ آخرت کا انکار کرنے والے دنیا کی زندگی پر خوش رہتے ہیں۔ 3۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیاکی کوئی حقیقت نہیں۔ تفسیر بالقرآن : دنیا کی حقیقت : 1۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرعد :26) 2۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں نہایت مختصر ہے۔ (التوبۃ:38) 3۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء :77) 4۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن :43) 5۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ:17)