اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
” اللہ وہ ہے جس نے آسما نوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جنہیں تم دیکھتے ہو، پھر وہ عرش پر بلند ہوا اور اس نے چاند اور سورج کو مسخر کیا۔ ہر ایک مقرر وقت کے لیے چل رہا ہے، وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔“ (٢)
فہم القرآن : ربط کلام : جس ہستی نے قرآن نازل فرمایا اس کی صفات کا بیان۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق، تدبیر اور حکمتوں کو دیکھنے کے لیے ایک سرسری نظر کا ئنات کی تشکیل اور تدبیر پر ڈالیں۔ کائنات اور اس کا نظام : اب تک جو کائنات معلوم ہوئی ہے اسے اگر مکعب کلو میٹر میں ناپا جائے۔ ایک مکعب کلومیٹر ایک کلومیٹر لمبائی، ایک کلومیٹر چوڑائی اور ایک کلومیٹر اونچائی ہے تو پوری معلوم کائنات کا گھیراؤ نکالنے کے لیے ایک کے آگے 69 صفر لگانے پڑیں گے تب حساب پورا ہوگا۔ اس کے باوجود کائنات لامحدود ہے اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ مسلسل انتہائی تیز رفتاری سے مزید پھیل رہی ہے۔ ہماری زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی وسعت کا یہ حال ہے کہ زمین سورج سے صرف 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے جبکہ پلوٹو سیارے کا سورج سے فاصلہ 15 اَرب 91 کروڑ کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین کا قطر 12754 کلومیٹر ہے۔ سورج کا قطر 14 لاکھ کلومیٹر ہے یعنی زمین سے 109 گنا بڑا ہے۔ قطر کی یہ وسعت تو کچھ بھی نہیں۔ ہماری کہکشاں کا قطر ایک لاکھ 17x کھرب کلو میٹر ہے۔ اس کہکشاں میں ایک کھرب ستارے پائے جاتے ہیں اور اب تک ایسی کھرب سے زائد کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات کے درمیان ایک کہکشاں ایسی ہے جس کے گرد تمام کہکشائیں چکر کاٹ رہی ہیں۔ ان کا ایک چکر 25 کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔ سورج کا وزن دس کھرب 19889 کھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجۂ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس میں 40 لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سکینڈ استعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت 6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ سورج کی حرارت ابھی مزید 5 اَرب سال کے لیے کافی ہے۔ ہماری کہکشاں کا وزن سورج سے 4 کھرب گنا زیادہ ہے اور اس کا فاصلہ کائنات کے مرکز سے اڑھائی لاکھ 10x کھرب کلومیٹر ہے۔ سب سے لمبی کہکشاں کی لمبائی تقریباً ایک ارب 10x کھرب کلو میٹر اور موٹائی دس کھرب 5x کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر ہے۔ اس کی روشنی 20 کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر اور اس کا قطر ہماری کہکشاں سے 80 گنا زیادہ ہے۔ روشنی ایک شمسی سال میں تقریباً 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے 95 کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کرتی ہے اسے نوری سال کہا جاتا ہے اور یہ کہکشاں ہماری زمین سے ایک ارب 7 کروڑ نوری سال دور ہے۔ اگر تمام ستارے ایک جیسے فاصلے سے دیکھے جا سکیں تو Carinaeta سب سے زیادہ روشن ہوگا۔ اس کی روشنی سورج سے 65 لاکھ گنا زیادہ ہے۔ 1989 ء میں فلکیات دانوں نے خلاء میں عظیم دیوار (Great Wall) کی دریافت کا اعلان کیا۔ یہ کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ اس کی لمبائی دس کھرب x ساڑھے سات ارب کلومیٹر ہے۔ اس کی چوڑائی دس کھرب 2.6x ارب کلومیٹر ہے اور اس کی گہرائی دس کھرب 22x کروڑ کلومیٹر ہے۔ اندازہ ہے کہ ایک کہکشانی نظام ایسا ہے کہ اس کی جو شعاعیں اس کہکشاں سے چار ارب نوری سال پہلے روانہ ہوئی تھیں وہ آج پہنچی ہیں۔ یعنی اس کہکشاں کی روشنی نے زمین تک پہنچنے کے لیے چار ارب 95x کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کیا ہے۔ ہماری قریب ترین کہکشاں Andromeda Galaxy M31 ہے۔ اس کا ہماری کہکشاں سے فاصلہ 22 لاکھ 99x کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کا وزن 3 کھرب سورجوں کے برابر اور اس کا قطر 95x130000 کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کا حجم ہماری کہکشاں سے دگنا ہے۔ اس میں تقریباً 4 کھرب ستارے ہیں۔ بعض کہکشاؤں کا قطر 2 ہزار سے 8 لاکھ نوری سال، وزن 10 لاکھ سے 100 کھرب سورجوں کے برابر اور روشنی دس لاکھ سے 1 کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر ہے۔ کہکشائیں کیا سب سے بڑی چیزیں ہیں ؟ جی نہیں ! کہکشائیں مل کر Cluster بناتی ہیں۔ Cluster میں سینکڑوں سے لے کر ہزاروں کہکشائیں ہو سکتی ہیں۔ ہماری کہکشاں جس Cluster میں ہے یہ 30 کہکشاؤں کا مجموعہ ہے جبکہ Spiral Galaxy M100 تقریباً 2500 کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ پھر Super Cluster درجنوں Clusters پر مشتمل ہوتا ہے۔ ابھی تک دکھائی دینے والی کائنات میں تقریباً 10 لاکھ Super Cluster ہیں۔ ایک Cluster کی کہکشاؤں کا آپس میں فاصلہ 10 لاکھ 95x کھرب کلومیٹر سے 20 لاکھ 95x کھرب کلومیٹر تک ہوتا ہے اور Clusters کے درمیان آپس کا فاصلہ اس سے سو گنا زیادہ ہے۔ Spherical Cluster میں 10 ہزار کہکشائیں ہیں۔ Quasars کائنات کے اب تک دریافت شدہ روشن ترین اجسام ہیں۔ زیادہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی چھوٹے ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں۔ ان کی روشنیاں جو آج ہم تک پہنچی ہیں یہ دراصل 10 ارب نوری سال پہلے وہاں سے چلی تھیں۔ ہمارے نظام شمسی جتنا Quasar دس کھرب سو رجوں سے زیادہ روشن جبکہ ہماری کہکشاں کی مجموعی روشنی سے سو گنا زیادہ روشن ہوتا ہے۔ 10 Quasar 3cg سے 16 اَرب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اگر ہم 7 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کریں تو کائنات عبور کرنے میں تین ہزار کھرب سال لگیں گے وہ بھی اگر کائنات محدود ہو تو جبکہ کائنات لامحدود ہے۔ زمین کی وسعت : زمین کا کرہ فضا میں سیدھا نہیں کھڑا بلکہ 23 درجے کا زاویہ بناتا ہوا ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہ جھکاؤ ہمیں ہمارے موسم دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہوجاتا ہے اور مختلف نباتات اور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ زمین اپنے محور پر 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لٹو کی کی مانند گھوم رہی ہے۔ اگر زمین کی رفتار 100 میل فی گھنٹہ ہوتی تو ہمارے دن اور رات موجودہ دن اور رات سے دس گنا زیادہ لمبے ہوتے۔ زمین کی تمام ہریالی اور ہماری فصلیں سو گھنٹے کی مسلسل دھوپ میں جھلس جاتیں اور جو بچ رہتیں وہ لمبی سرد رات میں سردی کی نذر ہوجاتیں۔ اگر زمین کی اوپرکی پرت صرف دس فٹ اور موٹی ہوتی تو ہماری فضا میں آکسیجن کا وجود نہ ہوتا جس کے بغیر حیوانی اور انسانی زندگی ناممکن ہوتی۔ اسی طرح اگر سمندر چند فٹ اور گہرے ہوتے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن جذب کرلیتے اور زمین کی سطح پر کسی قسم کی نباتات زندہ نہ رہ سکتیں۔ اگر آکسیجن 21% کی بجائے 50% یا اس سے زیادہ مقدار میں فضا کا جزو ہوتی تو سطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت کے آگ پکڑتے ہی سارا جنگل بھک سے اڑ جاتا۔ زمین کے گرد ہوا کا غلاف اس انداز سے رکھا گیا ہے کہ زمین پر اس کا دباؤ مناسب رہے تاکہ انسان سانس لینے میں دشواری محسوس نہ کرے۔ اور باہر سے آنے والے شہاب ثاقب رگڑ سے ہی جل جائیں۔ شہاب ثاقب ہر روز اوسطاً 2 کروڑ کی تعداد میں 6 سے 40 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کرۂ ہوائی (ہوا کے غلاف) میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر یہ موجودہ غلاف کی نسبت لطیف ہوتا تو شہاب ثاقب زمین کے اوپر ہر آتش پذیر مادے کو جلا دیتے اور سطح زمین کو چھلنی کردیتے۔ اگر زمین کے اوپر سے ہوا کا یہ غلاف کھینچ لیا جائے تو تمام جاندار آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں۔ اگر زمین کا حجم کم یا زیادہ ہوتا تو اس پر زندگی محال ہوجاتی۔ مثلاً اگر زمین کا قطر موجودہ کی نسبت چوتھائی ہوتا تو کشش ثقل کی اس کمی کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ پانی اور ہوا کو اپنے اوپر روک نہ سکتی۔ جیسا کہ جسامت کی اس کمی کی وجہ سے چاند میں واقع ہوا ہے۔ چاند پر اس وقت نہ تو پانی ہے اور نہ کوئی ہوائی کرہ ہے۔ ہوا کا غلاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات کے وقت بے حد سرد ہوتا ہے اور دن کے وقت تنور کی مانند جلنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس اگر زمین کا قطر موجودہ کی نسبت سے دگنا ہوتا تو اس کی کشش ثقل دگنی ہوجاتی۔ جس کے نتیجے میں ہوا جو اس وقت زمین کے اوپر 5 سو میل کی بلندی تک پائی جاتی ہے وہ کھنچ کر بہت نیچے تک سمٹ آتی۔ اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15 تا 30 پونڈ کا اضافہ ہوجاتا، جس کا رد عمل مختلف صورتوں میں زندگی کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتا۔ اور اگر زمین سورج جتنی بڑی ہوتی اور اس کی کثافت برقرار رہتی تو اس کی کشش ثقل ڈیڑھ سو گنا بڑھ جاتی۔ ہوا کے غلاف کی موٹائی گھٹ کر 5 سو میل کی بجائے صرف 4 میل رہ جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا کا دباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جا پہنچتا۔ اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کا نشوو نما ممکن نہ رہتا۔ ایک پونڈ وزنی جانور کا وزن ایک سو پچاس پونڈ ہوجاتا۔ انسان کا جسم گھٹ کر گلہری کے برابر ہوجاتا اور اس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی کیونکہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لیے بہت کثیر مقدار میں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے اور اس طرح پھیلے ہوئے ریشوں کا نظام ایک خاص درجہ کی جسامت میں ہی پایا جاسکتا ہے۔ سورج کی اہمیت : سب سے روشن کہکشاں کی مجموعی روشنی سورج سے 3 ہزار کھرب گنا زیادہ ہے۔ سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہوجائیں مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ ” کائناتی انگیٹھی“ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہوجائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آجائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہوجائیں گے۔ چاند کی حقیقت : چاند ہم سے تقریباً 384,400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مد و جزر کی لہریں اتنی بلند ہو تیں کہ تمام کرۂ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہوجاتے۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے۔ سورج اپنی غیر معمولی کشش سے ہماری زمین کو کھینچ رہا ہے اور زمین ایک مرکز گریز قوت کے ذریعے اس کی طرف کھنچ جانے سے اپنے آپ کو روکتی ہے۔ اس طرح وہ سورج سے دور رہ کر فضا کے اندر اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی دن زمین کی یہ قوت ختم ہوجائے تو وہ تقریباً 6000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچنا شروع ہوجائے گی اور چند ہفتوں میں سورج کے اندر اس طرح جا گرے گی جیسے کسی بہت بڑے الاؤ کے اندر کوئی تنکا گرجاۓ۔ (بحوالہ : سائنس اور قرآن از ہارون یحیٰ) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الْخَلَآئِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ )[ رواہ مسلم : باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَی عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں تھیں اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے قائم کیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ 3۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے حکم سے وقت مقرر کے مطابق چل رہے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تفصیل سے بیان فرماتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا یقین رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : آسمان کے بارے میں قرآنی معلومات : (یہاں ہم آسمان کے بارے میں چند آیات پیش کرتے ہیں ) 1۔ اللہ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے قائم کیا۔ (الرعد :2) 2۔ اللہ نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ (الانبیاء :32) 3۔ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے۔ (الانبیاء :30) 4۔ اللہ نے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرۃ:22) 5۔ پھر اللہ آسمان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ دھویں کی صورت میں تھا۔ ( حٰم السجدۃ:11)