سورة یوسف - آیت 105

وَكَأَيِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور آسمانوں اور زمینوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن کے پاس سے گزرتے ہیں اور وہ ان پر توجہ نہیں دیتے۔“ (١٠٥) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 105 سے 107) ربط کلام : یہودیوں نے اہل مکہ کو جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں نبی کریم (ﷺ) سے اس لیے سوال کرنے کو کہا کہ اگر آپ حقیقتاً نبی ہیں تو جواب دے پائیں گے۔ بصورت دیگر جھوٹے ثابت ہوں گے۔ اس واقعہ کا اختتام اس بات پر کیا جارہا ہے کہ یہ واقعہ ہی عبرت کی نشانی نہیں بلکہ زمین و آسمان اور آفاق میں بے شمار نشانیاں ان کے لیے موجود ہیں۔ جنہیں دیکھ کر یہ لوگ رب کی ذات کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر رب ماننے کے باوجود اسے ایک الٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) کے مخالفین میں بالخصوص مشرکین مکہ کی حالت یہ تھی کہ پہلے وہ آپ (ﷺ) سے دلیل مانگتے جب انھیں دلیل دی جاتی، پھر اس سے یکسر اعراض کردیتے تھے۔ جس پر انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمھارے لیے زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن کو دیکھنے کے باوجود ان کی طرف توجہ نہیں دیتے ہو۔ مانتے ہو کہ سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے۔ اللہ کو خالق ماننے کے باوجود اس کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ آیت 106میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ایمان کا دعوے دار ہونے کے باوجود مشرک ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اس بات سے بے پروا ہوگئے ہیں کہ ان کو اللہ کا عذاب گھیرلے یا اچانک ان پر قیامت ٹوٹ پڑے اس حال میں کہ انہیں اس کی توقع بھی نہ ہو۔ آیت کا معنی و مفہوم : آیت سے مراد قرآن مجید کے فرمان کا کچھ حصہ عقلی یا نقلی دلیل، نبی اکرم (ﷺ) کو عطا ہونے والے معجزات، اللہ تعالیٰ کی قدرت وسطوت کے نشانات اور پہلی اقوام کے انجام کے واقعات ہیں۔ قرآن مجید نے اہل مکہ اور رہتی دنیا تک سب انسانوں کے لیے دلائل پیش فرمائے ہیں لیکن آپ کے مخالف اس قدرہٹ دھرم اور کم ظرف تھے کہ حقیقت جاننے کے باوجود اپنے کفرو شرک پر ڈٹے رہے حا لانکہ جب ان سے یہ پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان کس نے پیدا کیے ہیں تو وہ واضح الفاظ میں کہتے کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے۔ ( العنکبوت :16) پھر ان سے سوال ہوتاکہ آسمان سے بارش نازل کرنے والا کون ہے؟ ان کا جواب ہوتا صرف اللہ ہی بارش نازل کرتا ہے۔ (العنکبوت :63) جب یہ پوچھا جا تاکہ زمین و آسمان سے تمہیں کون رزق دیتا ہے۔ تمہیں کان اور آنکھوں کی نعمتیں کس نے عطا فرمائیں ہیں؟ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کون پیدا کرتا ہے ؟ کائنات کا نظام کون چلا رہا ہے؟ فوراً جواب دیتے کہ اللہ ہی یہ سب کچھ کرنے والا ہے۔ ( یونس :31) اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایک صفت کا اقرار کرتے تھے اس کے باوجود مشرکین اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں کو خدا کا اوتار سمجھتے۔ یہود و نصاری انبیاء ( علیہ السلام) اور بزرگوں کی ارواح کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھ کر انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ مانتے اور ان کی طفیل مانگتے تھے۔ افسوس ان کی دیکھا دیکھی آج کے کروڑوں مسلمان بھی یہی عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہیں حالانکہ اس عقیدہ اور طریقہ عبادت کی ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہے اور نہ ہوگی۔ ایسے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کیا یہ بے پروا اور بے خوف ہوچکے ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب ہر طرف سے گھیرلے یا پھر ان پر اچانک قیامت برپاہو جائے۔ جن کو یہ اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان کو نہ عذاب سے بچاسکتا ہے اور نہ کوئی قیامت کو ٹال سکتا ہے۔ مسائل: 1۔ کفار زمین و آسمان کی نشانیوں سے منہ پھیرتے ہیں۔ 2۔ اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود شرک کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ کے عذاب سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور قیامت کسی وقت بھی آسکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کا عذاب ظالموں کو اچانک آلیتا ہے : 1۔ کیا وہ بے فکر ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب یا قیامت اچانک آلے اور انہیں پتا بھی نہ ہو۔ (یوسف :107) 2۔ ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ بے خبر تھے۔ ( الاعراف :95) 3۔ ہم ان کے پاس اچانک عذاب لے آئیں گے اور انہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ (العنکبوت :53)