سورة یوسف - آیت 58

وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور پھر یوسف کے بھائی آئے اور اس کے ہاں داخل ہوئے اس نے انہیں پہچان لیا اور وہ اسے نہیں پہچانتے تھے۔“ (٥٨) ’

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 58 سے 60) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قحط سالی کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا مجبور ہو کر مصر جانا۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ بادشاہ کے خواب کے مطابق خوشحالی کے سات سال گزرنے کے بعد مصر میں قحط سالی شروع ہوچکی تھی۔ اور اس قحط کے اثرات شام، فلسطین اور کنعان تک پھیل چکے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالتے ہی بہترین منصوبہ بندی کی۔ جس کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کا رخ کر رہے تھے۔ اسی بنا پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی غلہ لینے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لیکن وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچان سکے۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان تیار کر وا دیا تو فرمایا۔ آئندہ غلہ لینے کیلیے آؤ تو اپنے سوتیلے بھائی کو ضرور ساتھ لانا۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میں پورا پورا تولنے کے ساتھ مہمان کی بہترین تکریم کرنے والا ہوں۔ اگر تم اپنے بھائی کو ساتھ نہ لائے تو میرے پاس نہ آنا اور نہ ہی تمھیں غلہ دیا جائے گا۔ بھائیوں کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچاننے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ جب انھوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینکا تھا تو اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر نو یا دس سال سے زیادہ نہ تھی۔ اسی لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے رخصت کرتے وقت فرمایا تھا کہ اس کا خیال رکھنا کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھا جائے۔ اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر بقول بعض مفسرین کے 17یا 20سال کی تھی تو اس عمر میں آدمی اتنا بچہ نہیں ہوتا کہ کسی درخت وغیرہ پر یا کسی اور طرح اپنی حفاظت نہ کرسکتا ہو۔ کنویں میں پھینکنے کے بعد اب تک تقریباً تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا۔ جن کا اس طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر یوسف (علیہ السلام) کی عمر کنویں کے وقت دس سال کی تھی تو وہ عزیز مصر کے ہاں کم ازکم بیس سال ٹھہرے ہوں گے۔ پھر وہ نو، دس سال جیل میں بھی رہے گویا کہ اب وہ چالیس کے لگ بھگ تھے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ ” اور جب وہ ( یوسف (علیہ السلام) اپنی بھرپور جوانی کو پہنچے۔“ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے بھائیوں سے جدا ہوئے کم و بیش چالیس سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چالیس سال کے بعد دس، بارہ سال کے بچے کے نقش ونگار اور قدوقامت میں غیر معمولی فرق واقع ہوجاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھائی سوچتے ہوں گے کہ اگر یوسف (علیہ السلام) زندہ ہے تو وہ کسی کی نوکری چاکری کر رہا ہوگا۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ جس یوسف کو ہم نے دنیا کی ٹھوکریں کھانے کے لیے کنویں میں پھینکا تھا۔ وہ کنویں کی گہرائیوں سے نکل کر مصر کے اقتدار کی بلندیوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ وہ مقتدر شخصیت ہمارا ہی سوتیلا بھائی ہے جس کو وہ پہچان نہ سکے۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے انھیں پہچان لیا اور ان کو بھائیوں جیسی تکریم دیتے ہوئے بہترین مہمان نوازی کی۔ یہاں قرآن مجید کے الفاظ سے یہ مفہوم بھی آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں سے ایک سے زیادہ بار ملاقات کرچکے تھے۔ اور باتوں باتوں میں انھوں نے اپنے گھر کے حالات ان سے دریافت کرلیے تھے۔ جس وجہ سے فرما رہے ہیں کہ جب آئندہ غلہ لینے کے لیے آؤ تو اپنے سوتیلے بھائی کو ساتھ لانا ورنہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ الْکَعْبِیِّ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جَآئِزَتُہٗ یَوْمٌ وَّلَیْلَۃٌ وَّالضِّیَافَۃُ ثَلٰثَۃُ اَیّاَمٍ فَمَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ صَدَقَۃٌ وَّلَا یَحِلُّ لَہٗٓاَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہٗ حتَیّٰ یُحَرِّجَہٗ) [ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہٖٓ إِیَّاہُ بِنَفْسِہٖ ] ” حضرت ابو شریح کعبی (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن ایک رات خوب اہتمام کرے مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں بلاوجہ مقیم رہے کہ اسے تنگی میں مبتلا کر دے۔“ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔ 2۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انہیں نہ پہچان سکے۔ 3۔ یوسف (علیہ السلام) ناپ تول میں کمی نہیں ہونے دیتے تھے۔ 4۔ یوسف (علیہ السلام) بہت ہی مہمان نواز تھے۔