وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
” اور قید خانے میں اس کے ساتھ دو جوان داخل ہوئے۔ دونوں میں سے ایک نے کہا یقیناً میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا یقیناً میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں، جس سے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں اس کی تعبیر بتائیں۔ یقیناً ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھتے ہیں۔“ (٣٦) ”
فہم القرآن : (آیت 36 سے 37) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں بدکاری کے مقابلے میں جیل کو ترجیح دینا۔ حقائق جاننے اور عزیز مصر کی بیوی کے اعتراف جرم کے باوجودمصر کا حکمران طبقہ اور زعماء اپنی عورتوں کے ہاتھوں اس قدر مجبورہوا کہ انہوں نے نسوانی رائے عامہ کے خوف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) جیسے عظیم کردار کے حامل، شرم وحیا کے پیکر، دیانت و امانت کے امین اور احساس ذمہ داری کے نگہبان کو جیل کی کال کوٹھڑی میں بند کردیا۔ جس کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں نے سب حقائق جاننے اور دیکھنے کے باوجود ایک مدت تک حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بند رکھا۔ عربی شمار کے مطابق ” سنین“ کا لفظ دس سال کی مدت تک استعمال ہوتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بے گناہ اور ایک پردیسی کی حیثیت سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہی جیل میں داخل ہونے والے دو جوان قیدیوں نے ان کے سامنے اپنا اپنا خواب بیان کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں۔ جنہیں پرندے نوچ رہے ہیں۔ اے یوسف ہمیں اس کی تعبیر بتائیں؟ کیونکہ ہم آپ کو محسن سمجھتے ہیں محسن کے دو معنی ہیں۔ 1۔ نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والا۔ 2۔ لوگوں پر احسان کرنے والا۔ ان الفاظ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار کے کمال و جمال کا پتا چلتا ہے کہ ایک پردیسی اور بے گناہ قیدی ہونے کے باوجود کتنے حوصلے کے ساتھ جیل کاٹتے ہوئے اپنے رب کے شکر گزار اور ساتھیوں کے کس قدر خدمت گار ہوں گے۔ حالانکہ ایک بے گناہ قیدی اپنی بے گناہی اور ظالموں کے ظلم کی وجہ سے قید میں نہایت ہی پریشان دن گزارتا ہے۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) جیل میں ایسا کردار پیش کرتے ہیں کہ ان کے قید کے ساتھی ان کے صالح کردار اور حسن اخلاق کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے اور ان کے کردار اور صلاحیتوں سے متاثر اس قدرہیں کہ ان کو انتہائی نیک، سمجھ دار اور خیرخواہ سمجھ کر ان کے سامنے اپنے خواب ذکر کرتے ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ دونوں قیدی حاکم مصر کے شاہی مہمان خانے کے ملازم تھے۔ ایک باورچی خانے کا انچارج اور دوسرا حاکم مصر کے لیے مشروبات تیار کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے شراب یا کوئی مشروب اپنے آقا کی خدمت میں پیش کیا اس میں کرواہٹ تھی اور دوسرے کے کھانے پکانے میں کوئی نقص واقع ہوا۔ بعض اہل علم نے اسرائیلی روایات یا ان جوانوں کی قید کی سزا کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندازے سے لکھا کہ انہوں نے شراب اور کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔ قرآن و حدیث اور تاریخ کی کسی بھی مستند کتاب سے ان کے زہر ملانے کا ثبوت نہیں ملتا۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ اکثربادشاہ نازک مزاج اور مغضوب الغضب ہوتے ہیں۔ جو بعض دفعہ چھوٹی سی غلطی پر بڑی سے بڑی سزا دینے سے نہیں چوکتے۔ بہرحال غلطی کوئی بھی ہو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کا خواب سنتے ہی فرمایا کہ قید میں تمہارا کھانا آنے سے پہلے ہی میں تمہارے خواب کی تعبیر بتاؤں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب محسوس کیا کہ قیدی بھائی مجھ پر اعتماد اور میرے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں تو انہوں نے اس موقعہ کر غنیمت جانتے ہوئے انہیں دین کی دعوت دی۔ یہی داعی کی شان اور بصیرت ہونی چاہیے کہ وہ موقعہ محل کے مطابق دین کی دعوت پیش کرے۔ دین کی ابتدا اور انتہا تین بنیادوں پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن جواب دہی کا تصور اور عقیدۂ توحید پر ایمان لانا اور نبی کی ہدایت کے مطابق ان کے تقاضے پورے کرنا۔ چنانچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قیدیوں کو دین سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا ملکہ، معاملہ فہمی اور اپنی جناب سے علم عنایت فرمایا ہے۔ اس لیے میں نے ایسی قوم کے طرز فکر اور طریقۂ حیات کو چھوڑ دیا ہے۔ جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور قیامت کے روز اس کے حضور پیش ہونے کے عقیدے کا انکار کرتے ہوں۔ اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے نبی ہونے کی طرف بھی اشارہ کردیا۔ مسائل: 1۔ خواب کی تعبیر، تعبیر جاننے والے سے پوچھنا چاہیے۔ 2۔ بےدین لوگوں کی راہ نہیں اپنانی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : ملت کفرو شرک کو چھوڑنے کا حکم : 1۔ میں ایسی ملت چھوڑتا ہوں جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہ لائے۔ (یوسف :37) 2۔ اے پروردگار ! اس کو امن والا شہر بنا، مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ (ابراہیم :35) 3۔ دین پر قائم رہو اور بے علموں کے راستہ کی پیروی نہ کرو۔ (یونس :79) 4۔ ہم نے آپ کو دین کے ایک طریقہ پر کردیا آپ اسی پر چلے جائیں اور بے علموں کی خواہش کی پیروی نہ کریں۔ (الجاثیۃ:18) 5۔ بے وقوف ہی ملت ابراہیم سے منحرف ہوسکتا ہے۔ (البقرۃ:130) 6۔ کہہ دیجئے اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تم دین ابراہیم کی پیروی کرو۔ (آل عمران :95) 7۔ ہم اس وقت اللہ پر افتراء بازی کریں گے۔ اگر ہم ملت کفر میں لوٹ آئیں۔ (الاعراف :89)