وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
” اور جس شخص نے اسے مصر سے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا اسے اچھے انداز میں رکھیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جگہ دی، تاکہ ہم اسے معاملات کی حقیقت تک پہنچنا سکھائیں۔ اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (٢١)
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بازار میں بکنا اور عزیز مصر کا انہیں خریدنا۔ جن اہل علم نے اس سے پہلی آیت کا یہ مفہوم لیا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کرنے والے ان کے بھائی تھے۔ انھوں نے مختلف غیر مستند روایات سے ثابت کیا ہے کہ جب قافلہ والے حضرت یوسف کو بیچنے کی غرض سے بازار میں لائے۔ توہر خریدار ان پر اس قدر فریفتہ ہوا جس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بولی لگتے لگتے ڈھیروں درہم و دینار اور قیمتی کپڑوں کے انبار لگ گئے مگر عزیز مصر نے سب سے زیادہ بولی چکا کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا۔ آیات کے سیاق و سباق سے یہ بات زیادہ واضح ہوتی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں سے قافلے والوں نے ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا تھا کیونکہ یہ لوگ بنیادی طور پر بردہ فروش نہ تھے۔ جس و جہ سے انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قیمت بڑھانے میں زیادہ دلچسپی نہ لی۔ بہرحال حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر خرید کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ عزیز مصر کون تھا؟ اکثر مفسرین اور مؤرخین کا خیال ہے کہ مصر کا وزیر خزانہ تھا۔ سوسائٹی کا بڑا آدمی اور حکومت کے اہم عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خریدتے وقت پہچان گیا کہ یہ بچہ کوئی عام بچہ نہیں ہے بلکہ کسی بڑے خاندان کا چشم وچراغ ہے لیکن زمانے کے حوادث نے اسے منڈی کا مال بنا دیا ہے۔ اسے یہ فیصلہ کرنا اس لیے بھی آسان ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) عمر کے اعتبار سے بچہ ہونے کے باوجود اپنے حسن وجمال میں سب سے نمایاں تھے۔ اس لیے اس نے گھر جاتے ہی اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا خیال رکھنا۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے لیے بڑا مفید ثابت ہو یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے ہاں پہنچنا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا نتیجہ تھا۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یوسف کو زمین میں یعنی مصر میں اچھا ٹھکانہ دیا تاکہ اسے معاملہ فہمی اور امور مملکت سکھلائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر کامیاب کرنے اور ہر حکم کو نافذ کرنے پر قادر ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اللہ کی تقدیر اور اس کے احکام کی حکمت کو نہیں جانتی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں تین آدمی بڑے ہی عقلمند اور قیافہ شناس ثابت ہوئے ہیں۔ 1۔ عزیز مصر جس نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھتے ہی گوہر نایاب کے طور پر پہچان لیا اور اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ اس بچے کا ہر لحاظ سے خیال رکھنا۔ یہ بڑا ہو کر ہمارے لیے بڑا ہی سود مند ثابت ہوگا۔ 2۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر جس نے ایک مسافر یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو شرم وحیا کے ساتھ ایک نظر دیکھتے ہی پہچان لیا تھا کہ یہ جوان نہایت ہی باحیا، صاحب کردار، خیر خواہ اور دیانت دار ہے۔ بعد ازاں اسی کی رائے کے نتیجے میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو آٹھ سے دس سال کے لیے اپنے گھر رکھا پھر اسی بیٹی کو ان کے نکاح میں دیا۔ 3۔ تیسرے ” سیدنا“ صدیق اکبر (رض) ہیں۔ جنہوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا۔ جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی وہ خدمت کی جس کی مثال قیامت تک نہ مل سکے گی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بہتر ٹھکانہ عطا فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کا حکم ہر حال میں غالب ہوتا ہے : 1۔ اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 2۔ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے۔ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ:117) 3۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ :20)