وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
” اور ایک قافلہ آیا تو انھوں نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا سو اس نے اپنا ڈول لٹکایا۔ کہنے لگا ! خوشخبری ہو ! یہ ایک لڑکا ہے۔ اور انھوں نے پونجی سمجھ کر چھپا لیا اور اللہ خوب جانتا تھا جو وہ کررہے تھے۔“ (١٩) ”
فہم القرآن : (آیت 19 سے 20) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائی کنویں میں پھینک کر واپس چلے آئے۔ کچھ دنوں کے بعدایک قافلہ کنویں کے قریب اترا اور انھوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے نکال لیا۔ مفسرین کی غالب اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) تین دن تک اس ویران کنویں میں پڑے رہے اور آخری دن ایک قافلہ وہاں سے گزرا جنہوں نے اس زمانے کے دستور کے مطابق ایک آدمی کو اپنے سے پہلے روانہ کیا تاکہ جہاں انہوں نے پڑاؤ ڈالنا ہے اس کے گردو جوار پانی تلاش کرے۔ پانی تلاش کرنے والے شخص نے جب کنویں میں ڈول ڈالا۔ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اس ڈول میں بیٹھ کر باہر نکلے۔ جنہیں دیکھتے ہی وہ شخص چلا اٹھا کہ قافلے والو! خوش ہوجاؤ۔ ہمیں ایک غلام مل گیا ہے۔ ظاہر ہے قافلے والوں نے آج تک ایسا غلام نہیں دیکھا ہوگا۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پیغمبروں کے عظیم خاندان کا صاحبزادہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا حسن و جمال عنایت فرمایا تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ آٹھ، نو سال کی عمر کا پیغمبر زادہ اس کے حسن و جمال اور چہرے کی نورانیت اور معصومیت چودھویں رات کے چاند کو شرما رہی تھی۔ قافلہ والوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی مگر یہ لوگ بردہ فروش نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو چند درہموں کے عوض یعنی حقیر سی رقم پر بیچ ڈالا۔ کیونکہ انہیں بردہ فروشی کے کارو بارکے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کچھ لوگوں نے اس کا مفہوم یہ لکھا ہے کہ بیچنے والے قافلے کی بجائے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تھے۔ جو کسی نہ کسی انداز میں ان کی نگرانی کر رہے تھے۔ کہ یوسف کا کیا انجام ہوتا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ قافلے والے اسے نکال کرلے جا رہے ہیں۔ تو انہوں نے مختلف بہانے بنا کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان سے حاصل کیا اور بعد ازاں انہیں کے ہاتھوں معمولی قیمت لے کر فروخت کردیا۔ لیکن پختہ اہل علم، اس بات کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے انہوں نے فروخت کنند گان سے مراد قافلے کے لوگ سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پہلی آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا جو وہ کررہے تھے۔ جس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ 1۔ برادران یوسف کو یہ معلوم نہ تھا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کا انجام یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں کتنا بہتر ہوگا۔ 2۔ قافلے والوں کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ جسے وہ عام بچہ اور غلام سمجھ رہے ہیں وہ کس قدر بڑے خاندان کا لخت جگر اور کس قدر عظیم الشان قسمت کا مالک ہوگا۔ غلام عربی زبان میں صرف زرخرید شخص کے لیے نہیں بلکہ غلام کا لفظ چھوٹے بچے سے لے کر ایسے نوجوان کے بارے میں بھی بولا جاتا ہے جس کے چہرے پر جوانی کا سبزہ نمودار ہورہاہو۔ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر پانی لانے والا خوشی سے چلا اٹھا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے خوب واقف ہے۔ 3۔ یوسف (علیہ السلام) کو معمولی قیمت پر فروخت کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے : 1۔ اللہ خوب واقف تھا جو کچھ وہ کر رہے تھے۔ (یوسف :19) 2۔ اللہ دیکھنے والا ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ (آل عمران :163) 3۔ نہیں ہے اللہ غافل اس سے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ (الانعام :132) 4۔ بے شک جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ (ھود :111) 5۔ ہم ان کو خبر دیں گے جو وہ اعمال کرتے رہے۔ (الانعام :109) 6۔ اللہ کو ظالموں کے اعمال سے غافل تصور نہ کریں۔ (ابراہیم :42)