سورة ھود - آیت 120

وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ ۚ وَجَاءَكَ فِي هَٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور رسولوں کی خبروں میں سے ہر وہ خبر جو ہم تجھ سے بیان کرتے ہیں وہ ہے جس سے ہم تیرے دل کو مضبوط کرتے ہیں اور تیرے پاس ان خبروں میں سے حق بات اور مومنوں کے لیے ایک نصیحت اور یادد ہانی ہے۔“ (١٢٠) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 120 سے 122) سرور دو عالم (ﷺ) کو تیسری مرتبہ پھر تسلّی اور حوصلہ دیا گیا ہے۔ دین کا داعی وقت کا پیغمبر ہو یا ایک عام مبلغ اس کے راستے میں بہرحال ایسے مشکل مقام آتے ہیں۔ جن کا سامنا کرتے ہوئے دل پسیجتا ہے اور اسے اپنا حوصلہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ڈھارس اور اطمینان دلانے کے لیے اس کے سامنے دنیا سے رخصت ہونے والے عظیم لوگوں کے عظیم الشان کارنامے بیان کیے جائیں تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی قوت کار میں اضافہپاتے ہوئے منزل مقصود کے لیے ان واقعات کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھتا ہے۔ بے شک نبی اکرم (ﷺ) سرور دو عالم تھے مگر ایک انسان ہونے کے ناطے حوصلہ افزا معاملات سے آپ کا دل ڈھارس حاصل کرتا۔ اور منفی رد عمل سے آپ کو غم اور پریشانی لاحق ہوتی تھی۔ جسے دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء کرام کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ آپ کے حسب حال کچھ انبیاء کے واقعات مختصر اور باقی کے قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ جنہیں آپ کے لیے اطمینان کا باعث قرار دیتے ہوئے حق کی تائید میں ٹھوس دلائل دیے ہیں تاکہ لوگوں کے دل حق کی طرف مائل ہوں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے بہترین نصیحت کا مواد موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو آپ (ﷺ) کو ارشاد ہے کہ آپ انہیں فرمائیں کہ حق کا انکار کرنے والو! میرے ساتھ مزید الجھنے اور حق کے راستہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے تم اپنے کام کیے جاؤ اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔ اس کے نتیجے کا تم بھی انتظار کرو اور میں بھی اپنی جگہ انتظار کرتا ہوں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ () یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ اللَّہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللَّہِ تَخَافُ عَلَیْنَا وَقَدْ آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ بِمَا جِئْتَ بِہِ فَقَالَ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ یُقَلِّبُہَا وَأَشَا رَ الأَعْمَشُ بِإِصْبَعَیْہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب دعاء الرسول] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ میرے دل کو دین پر قائم فرما، ایک آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! آپ ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں جبکہ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ کی تصدیق کی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا یقیناً دل رحمن کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں وہ انہیں جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے اور اعمش نے اپنی انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا۔“ مسائل : 1۔ رسول اللہ (ﷺ) کے دل کو تقویت دینے کے لیے سابقہ انبیاء کے قصے بیان کیے گئے۔ 2۔ سابقہ انبیاء و رسل کے قصے برحق ہیں۔ 3۔ انبیاء (علیہ السلام) کے قصص میں مومنین کے لیے نصیحت ہے۔ 4۔ ایمان نہ لانے والوں کو عنقریب سب کچھمعلوم ہوجائے گا۔ تفسیر بالقرآن : قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات کی حیثیت : 1۔ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات سچے ہیں ان میں اہل ایمان کے لیے نصیحت ہے۔ (ھود :120) 2۔ بے شک یہ قصے بالکل برحق ہیں اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (آل عمران :62) 3۔ ہم ان کی خبریں آپ پر حق کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ (الکہف :13) 4۔ ہم آپ پر سابقہ امم کی خبریں بیان کرتے ہیں۔ (طہٰ:99) 5۔ ہم نے آپ سے پہلے ان میں رسول بھیجے ان میں سے بعض کے واقعات ہم نے آپ پر بیان کیے۔ (المومن :78)