سورة البقرة - آیت 8

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 8 سے 9) ربط کلام : ایمان کی مبادیات تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں کے بیان کے بعد تیرہ آیات میں منافقوں یعنی دوغلے لوگوں کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ نبی {ﷺ}اور ہر داعی حق کو تین قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ لہٰذا گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس میدان کے غازی کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ نفاق : دل میں کفر اور ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنا نفاق کہلاتا ہے۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں، اعتقادی نفاق اور عملی نفاق دونوں احکام کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ تین قسم کے لوگ : نظریاتی اعتبار سے دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ (1) حق اور سچ قبول کرنے والے۔ (2) حق کا انکار کرنے والے (3) ذاتی مفاد یا فکری انتشار کی وجہ سے ہمیشہ تذبذب کا شکار اور دنیوی مفاد کی خاطر اعراض کرنے والے لوگ جنہیں قرآن مجید نے منافق قرار دیا ہے۔ یہ ڈبل چہرے اور دوہرے کردار کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسا شخص نہ قول کا سچا اور نہ کردار کا پختہ ہوتا ہے۔ اسے ہر بات میں دنیا کا مفاد عزیزہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقدّس نام اور دین کے پاکیزہ کام کو بھی اپنی ذات اور مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتی کہ آخرت کے عقیدے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا۔ منافق، مومنوں کی آستینوں میں گھسے ہوئے سانپ ہیں جو ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور شرارتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ کتنا برا اور بد بخت ہے وہ آدمی جو اپنی ذات کو دھوکے میں مبتلا رکھے۔ کیونکہ منافق اللہ کے رسول کو دھوکہ دیتے، دین اور دین داروں کو مذاق کرتے ہیں۔ دین اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور رسول کریم {ﷺ}کو بھی اسی نے مبعوث فرمایا ہے اور مومنوں کو بھی دین کی وجہ سے استہزا کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دھوکہ کو اپنی ذات کے ساتھ دھوکہ اور مذاق قرار دیا ہے۔ رسول محترم {ﷺ}نے منافق کے کردار کو اس طرح بیان فرمایا ہے : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم) ” حضرت عبداللہ بن عمر {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ()۔۔ قَالَ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان باب قول النبی { }من غشنا فلیس منا) ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جس نے دھوکہ دیا وہ مجھ سے نہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ {}قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ {رض}نبی کریم {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ مسائل : 1-منافق اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن حقیقتاً وہ ایمان دار نہیں ہوتا۔ 2- منافق اللہ تعالیٰ اور ایمان داروں کو دھوکا دیتا ہے۔ 3۔ منافق حقیقی فہم و شعور سے عاری ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : منافق کا جھوٹا دعویٰ : 1- منافق دعوی ایمان کے باوجود ایمان دار نہیں۔ ( البقرۃ:8) 2- اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق دعویٰ ایمانی میں جھوٹے ہیں۔ ( المنافقون :1) 3- منافقین نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہوا ہے۔ ( المنافقون :3) 4- منافق ایمان کے دعویٰ کی جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ ( التوبۃ:56) منافق کی دھوکہ بازیاں : 1- منافق اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ:9) 2- منافق رسول {ﷺ}کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( المنافقون :1) 3- منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء :142)