فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هَٰؤُلَاءِ ۚ مَا يَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُم مِّن قَبْلُ ۚ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنقُوصٍ
” پس آپ ان چیزوں کے بارے میں جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں کسی شک میں نہ رہیں۔ یہ لوگ عبادت نہیں کرتے مگر اسی طرح جیسے ان سے پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے اور یقیناً ہم انہیں ان کا حصہ پورا پورا دینے والے ہیں۔ جس میں کوئی کمی نہ ہوگی۔“ (١٠٩)
فہم القرآن : ربط کلام : انبیاء کرام کی دعوت کی یاد دہانی۔ جہنمیوں اور جنتیوں کی سزا، جزا سے پہلے مسلسل انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کے ردّ عمل کا ذکر ہو رہا تھا۔ جس کے آخر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی آویزش کا ذکرہوا۔ اب درمیان میں رسول اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے توجہ دلائی جارہی ہے کہ اے نبی! جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ان کے باطل ہونے کے بارے میں آپ کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو ان کی محض اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ ان سے پہلے ان کے باپ داداعبادت کرتے آرہے ہیں۔ ہم ان کو کسی کمی و بیشی کے بغیر اس کا پورا پورا بدلہ چکائیں گے۔ اس فرمان میں بظاہر رسول اکرم (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے مگر تمام اہل علم کا نقطہ نظر ہے کہ اصل مخاطب اس سے آپ کی امت ہے۔ جس کا مقصد مسئلہ توحید کی افادیت اجاگر کرنا ہے۔ یہ بات سامنے رہے کہ ہر دور کے مشرک اور کفار جنکی وہ عبادت کرتے ہیں۔ جب انہیں اس سے روکا جاتا ہے تو وہ یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ تو پتھر، مٹی یا لکڑی کے مجسمے ہیں۔ ہماری مراد تو ان کی ارواح ہیں۔ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتے ہیں اور یہ ہماری دعائیں اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید اس طریقہ کو عبادت قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس کی تردید اور مذمت کرتا ہے۔ بلکہ اسے اللہ کے ساتھ شرک قرار دیتا ہے۔ جو تمام گناہوں کا منبع اور سب سے بڑا ظلم اور جرم ہے۔ اس طرح کی عبادت کرنے والوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہیں اس کا پورا پورا حصہ دیا جائے گا جس میں کوئی کمی نہ ہونے پائے گی۔ (عَنْ اَنَسٍٖ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ لِاَھْوَنِ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ اَنَّ لَکَ مَا فِیْ الْاَرْضِ مِنْ شَیْءٍ اَکُنْتَ تَفْتَدِیْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ اَرَدْتُّ مِنْکَ اَھْوَنَ مِنْ ھٰذَا وَاَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ اَنْ لَّا تُشْرِکَ بِیْ شَیْئًا فَاَبَیْتَ اِلَّا اَنْ تُشْرِکَ بِیْ )[ رواہ البخاری : باب خلق آدم ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے سے پوچھیں گے اگر تیرے پاس زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز ہوتی تو کیا تو اسے اس عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں دے دیتا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تجھ سے اس وقت بہت ہی معمولی مطالبہ کیا تھا۔ جب تو آدم (علیہ السلام) کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا‘ لیکن تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شریک ٹھہراتا رہا۔“ مسائل : 1۔ کفار اپنے اباء واجداد کے طور طریقہ پر معبود ان باطل کی پرستش کرتے ہیں۔ 2۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کی پوری جزا یا سزا ملے گی۔ تفسیر با لقرآن : ظالموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی : 1۔ بے شک ہم ان کو ان کا حصہ بغیر کم و کاست دیں گے۔ (ھود :109) 2۔ قیامت کے دن ہر آدمی کو اس کی کمائی کا پورا پورا صلہ دیا جائیگا۔ ( المومن :17) 3۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہ کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق صلہ دیا جائیگا۔ ( یٰس :54) 4۔ جو آدمی برائیاں کرتا رہا اس کو اسی کی مثل سزا دی جائیگی۔ ( المومن :40) 5۔ اللہ بروں کو ان کی برائی کی ٹھیک ٹھیک سزا دے گا۔ (النجم :31) 6۔ قیامت کے دن تمہیں اسی چیز کا بدلہ دیا جائے گا جو تم عمل کرتے ہو۔ (النمل :90)