سورة ھود - آیت 18

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ بولے ؟ یہ اپنے رب کے سا منے پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا۔ سن لو ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔“ (١٨) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 18 سے 19) ربط کلام : قرآن مجید کی تکذیب، آخرت کا انکار کرنا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ کفار یہ الزام عائد کرتے کہ محمد (ﷺ) قرآن مجید اپنی طرف سے بنالیتا ہے۔ ان کا یہ الزام بھی تھا کہ مرنے کے بعد اللہ کے حضور پیش ہونے کا تصور اس شخص کے الفاظ کی جادوگری ہے حالانکہ آپ (ﷺ) یہ باتیں من جانب اللہ کیا کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے رسول (ﷺ) ! یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے ! بلکہ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ جو حقیقت میں اللہ کو جھٹلانا ہے۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ بولتا ہے اس سے بڑھ کر کون بڑا ظالم ہوسکتا ہے؟ ان جھوٹوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا اور ان پر شہادتیں قائم کی جائیں گی۔ تب یہ کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس وقت گواہ کہیں گے کہ ظالموں پر اللہ کی پھٹکارہو۔ یہ لوگ قیامت کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی وجہ سے یہ لوگ قولاً اور عملاً اللہ کی راہ میں رکاوٹ بننے کے ساتھ کفر کررہے ہیں۔ (عَنْ کَنَانَۃَ الْعَدَوِیِّ قَالَ دَخَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ (رض) عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ () فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أخْبَرَنِیْ عنِ الْعَبْدِ، کَمْ مَعَہٗ مِنْ مَلَکٍ ؟ فَقَالَ مَلَکٌ عَلٰی یَمِیْنِکَ عَلٰی حَسُنَاتِکَ، وَھُوَ آمِرٌ عَلٰی اَّلذِی عَلٰی الشِّمَالِ، إذَا عَمِلْتَ حَسَنَۃً کُتِبَتْ عَشْرًا، فَإذَا عَمِلْتَ سَیِّئَۃً قَالَ الَّذِی عَلٰی الشِّمَالِ لِلَّذِیْ عَلٰی الْیَمِیْنِ اَکْتُبُ ؟ قَالَ لَا لَعَلَّہٗ یَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَیَتُوْبُ)[ ابن کثیر] ” کنانہ بن عدی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آئے اور کہنے لگے اللہ کے رسول آدمی کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں آپ نے فرمایا ایک فرشتہ دائیں جانب جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور وہ بائیں جانب والے فرشتے سے با اختیار ہوتا ہے۔ جب انسان نیکی کرتا ہے تو وہ دس نیکیاں لکھ لیتا ہے۔ جب برائی کرتا ہے تو بائیں جانب والا دائیں جانب والے سے کہتا ہے کیا میں لکھ لوں؟ وہ کہتا ہے نہیں شاید کہ استغفار کرلے اور توبہ کرلے۔“ مسائل : 1۔ اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر افترا بازی کرتا ہے۔ 2۔ قیامت کے دن جھوٹے اللہ کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ 3۔ جھوٹوں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ 4۔ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ 5۔ آخرت کا انکار کرنے والے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن مجرم کے خلاف شہادتیں : 1۔ قیامت کے دن جھوٹ باندھنے والوں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ (ہود :18) 2۔ قیامت کے دن مجرم کے ہاتھ، پاؤں اور زبان اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (النور :24) 3۔ قیامت کے دن مجرموں کے مونہہ پر مہر لگادی جائے گی ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (یٰس :65) 4۔ یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے۔ تو ان کے کان، آنکھیں اور جسم ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (حٰم السجدۃ:20) 5۔ نبی اکرم (ﷺ) اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (البقرۃ:143)