سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
عنقریب نادان لوگ کہیں گے کہ جس قبلہ پر یہ تھے اس سے انہیں کس چیز نے ہٹا دیا ہے آپ فرمادیں کہ مشرق و مغرب کا مالک اللہ ہی ہے وہ جسے چاہے سیدھے راہ کی ہدایت دیتا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : پہلے پارہ کے اختتامی رکوعات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے وضاحت فرمائی تھی کہ بیت اللہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادے نے تعمیر کیا تھا۔ پھر یہود و نصارٰی کو ملت ابراہیم پر متفق ہوجانے کی دعوت دی تھی۔ پارہ کی آخری آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ ایک امت تھی جن کے عقائد و نظریات ایک ہی تھے اور وہ اس دنیا سے جہان آخرت کی طرف رخت سفر باندھ چکے لہٰذا اب ان کی شریعت کے حوالہ سے کوئی ثبوت دینا، اس پر مصر ہونا اور بیت المقدس کے قبلہ ہونے پر اصرار کرنا بڑی بے وقوفی کی علامت ہے جس کا یہ لوگ عنقریب برملا اظہار کریں گے۔ لیکن اے مسلمانو! گھبرانے کی بجائے اس سچائی پر قائم رہنا۔ یہاں یہود و نصارٰی کے پروپیگنڈہ کے مقابلہ کے لیے رسول محترم {ﷺ}اور صحابہ کرام {رض}کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ قبلہ کا لفظی معنی جانب اور سمت ہے۔ شرعی اصطلاح میں نماز کے وقت مسجد حرام کی جانب منہ کرنے کی سمت کو قبلہ کہا گیا ہے۔ اب بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مسلمان اعتقادی طور پر ایک رب کی عبادت کرنے والے ہیں اسی طرح عبادت کے وقت بھی ان کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہیے تاکہ فکری اور عملی طور پر امت میں وحدت ویگانگت پیدا ہوسکے۔ تحویل قبلہ کے وقت دنیا کے دو بڑے مذہب عیسائی اور یہودی عبادت کے وقت بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی کریم {ﷺ}بھی سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ لیکن آپ کی خواہش اور تمنا یہ تھی کہ جس طرح ہمیں ملت ابراہیم کی اتباع کا پابند کیا گیا ہے اسی طرح ہمارا قبلہ بھی بیت اللہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مرکز ہدایت اور مرجع خلائق بنایا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل سے پہلے آپ اور مسلمانوں کو اتنی بڑی تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عنقریب نادان لوگ کہرام مچائیں گے کہ تبدیلئ قبلہ کی کیا ضرورت تھی؟ پہلے قبلہ میں کونسی خرابی واقع ہوئی ہے؟ یہ تو محض مخالفت برائے مخالفت کا نتیجہ ہے۔ اس کے جواب میں اعتراض کرنے والوں کو سمجھایا کہ مشرق ومغرب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اسی کے اختیار میں ہے وہ جس طرف چاہے رخ پھیرنے کا حکم صادر فرمائے۔ وہ بھی ایک سمت تھی اور یہ بھی ایک جانب اور سمت ہے۔ لیکن فرق اتنا بڑا ہے کہ پہلے آپ اپنی مرضی سے بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اب اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے بیت اللہ کی طرف رخ پھیرلیں۔ ہدایت رسم ورواج، پرانی اور غیر مستند روایات کوا پنا نے کا نام نہیں۔ ہدایت تو وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نشاندہی اور رہنمائی فرماتا ہے۔ یہ انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان اور ہدایت کے طالب ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعتراض کرنے والے بیوقوف ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر بے وقوف بننے والوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی۔ مسائل: 1۔ اللہ ہی کے لیے مشرق ومغرب ہے۔ 2۔ اللہ کے حکم پر اعتراض کرنا بے وقوفی ہے۔ 3۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہی صراط مستقیم ہے۔ تفسیر بالقرآن : ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے : 1۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ:120) 2۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص :56) 3۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 4۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 5۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر :3) 6۔ نبی اکرم {ﷺ}بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص :56) 7۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات :17) 8۔ رسولِ اکرم {ﷺ}کی تابعداری انسان کی ہدایت کی ضمانت ہے۔ (النور :57) 9۔ صحابہ کرام {رض}کا ایمان ہدایت کی کسوٹی ہے۔ (البقرۃ:137) 10۔ ہدایت پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (آل عمران :8)