أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
” سن لو! یقیناً اللہ کے دوستوں پر، نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ (٦٢) ”
فہم القرآن : (آیت 62 سے 64) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کو تسلّی دینے اور آپ کے کام کو خراج تحسین سے نوازنے کے بعد توحید سے محبت کرنے والوں، نبی (ﷺ) کے جانثاروں اور حق پر قربان ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست قرار دیتے ہوئے انہیں تسلی دینے کے ساتھ تابناک مستقبل کی خوشخبری دی ہے۔ ولی کی جمع اولیاء ہے جس کا معنیٰ ہے دوست۔ اولیاء اللہ یعنی اللہ کے دوست جن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ ایمانداروں کا دوست ہے۔ ان کو کفر و شرک اور بدعت و رسومات سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ انھیں کو نور سے نکال کر کفرو شرک اور بدعت و رسومات کے اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ:257) قرآن مجید کے ارشاد سے بالکل واضح ہے کہ اولیاء اللہ کوئی الگ گروہ یا جماعت نہیں ہے بلکہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان کے تقاضے پورے کرنے والے ہیں۔ جو صاحب ایمان جس قدر اخلاص اور خدا خوفی کے ساتھ ایمان کے تقاضے پورے کرے گا وہ اسی درجے کا اللہ تعالیٰ کا دوست قرار پائے گا۔ لیکن مفاد پرست گروہ ان لوگوں کو اولیاء اللہ شمار کرتا ہے۔ جن سے کوئی کرامت سرزد ہویا وہ ایک مخصوص لباس اور انداز میں رہتے ہوئے عام مسلمانوں سے میل جول سے پرہیز کریں۔ اگر کوئی شخص تارک الدنیا ہو کر گوشہ نشین ہوجائے تو ایسے لوگوں کی نظروں میں وہ ولی کامل سے کم درجہ نہیں رکھتا۔ ہندو ازم سے متاثر ہو کر جاہل مسلمان ان لوگوں کو بھی ولی سمجھتے ہیں جو نہ صرف شریعت سے کو سوں دور ہیں بلکہ انسانیت کے مقام سے بھی گر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہوا کہ جہلاء نے اس معیار کو معیار نہ سمجھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ وہ معیار ہے۔ ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکاَنُوْا یَتَّقُوْنَ﴾[ یونس :63] ” جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔“ مشہور مفسر امام ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں : حضرت ابی بن کعب (رض) نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے استفسار کے جواب میں تقویٰ کی تشریح یوں فرمائی کہ کوئی آدمی ایسی پگڈنڈی سے گزرے جس کے ارد گرد خار دار جھاڑیاں ہوں وہ ان سے اپنا دامن بچا کر گزر جائے گویا کہ دنیا کی آلائشوں اور نفسانی شہوات سے بچ کر صراط مستقیم پر چلنے کا نام تقویٰ ہے۔ لیکن افسوس آج بعض مسلمانوں نے ولایت کا معیار تقویٰ رکھنے کی بجائے جہالت اور جسمانی غلاظت قرار دے لیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ علماء میں بھی اسی عالم کو زیادہ نیک اور متقی سمجھا جاتا ہے جو صاف ستھرے لباس سے پرہیز اور حق گوئی کے تقاضے پورے کرنے سے احتراز کرتا ہو۔ حالانکہ نبی اکرم (ﷺ) نے اس مسلمان کو زیادہ نیک قرار دیا ہے جو مشکلات میں عزیمت اختیار کرے اور لوگوں کے دکھ درد میں بھرپور طریقہ سے شرکت کرنے والا ہو۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں عظیم کامیابی حاصل ہونے کے ساتھ آخرت میں کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ بعض لوگوں نے ولایت کی یہ نشانی بھی ذکر کی ہے کہ ولی کو دنیا میں کوئی خوف اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی اگر اس سے مراد حقیقی پریشانی اور خوف لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے دوست یعنی ولی اللہ کا دل ہر حال میں مطمئن رہتا ہے۔ بحیثیت انسان کسی چیز کے چھن جانے اور ناگہانی افتاد آنے پر خوف و غم لاحق ہونے کے باوجود اس کا دل اپنے رب کی رضا پر راضی اور مطمئن ہوتا ہے جو لوگ ﴿وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ ولی کامل کو قطعاً کسی قسم کا خوف و غم نہیں ہوتا یہ انسانی فطرت اور شریعت کے سراسر منافی ہے۔ رسول محترم سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا کون دوست ہوسکتا ہے آپ اپنے اعزاء و اقربا کی موت پر زارو قطار روئے اور لوگوں کے مظالم کی وجہ سے بارہا دفعہ پریشان ہوئے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فرمان کا حقیقی اور صحیح مفہوم یہ ہے کہ موت کے بعد اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف و خطر اور پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے اور اس کے فیصلے میں کبھی تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہی ایماندار اور صاحب تقویٰ کا اعزاز اور اولیاء اللہ کا مقام ہے۔ کہ وہ قیامت کے خوف و خطر سے مامون ہوں گے۔ اولیاء اللہ کا مقام اور ان کی خوبی : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ باالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہُ فَاِذَا اَحْبَبْتُہُ فَکُنْتُ سَمْعَہٗ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَاوَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَاِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَّفْسِ الْمُؤْ مِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَنَا اَکْرَہُ مَسَاءَ تَہُ وَلَابُدَّلَہُ مِنْہُ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقائق، باب التواضع] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اکرم (ﷺ) سے حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے‘ جس شخص نے میرے دوست کے ساتھ عداوت رکھی اس کا خلاف میرا اعلان جنگ ہے اور میرے کسی بندے کو میرا قرب اور کسی چیز کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا جو قرب فرائض کی ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے۔ بندہ جوں جوں نفل پڑھتا ہے توں توں اسے میرا قرب حاصل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا طالب ہوتا ہے تو اس کو عطا کرتا ہوں۔ پناہ طلب کرتا ہے تو اس کو میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تامل نہیں ہوتا جتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں ہوتا ہے کیونکہ وہ موت سے کراہت کرتا ہے اور میں اس کو پہنچنے والی تکلیف کو برا سمجھتا ہوں۔ لیکن موت سے ہرگز چھٹکارا نہیں ہے۔“ ﴿أَلَآ إِنَّ أَوْلِیَآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾[ یونس :62] ” آگاہ رہو اولیاء اللہ پر کسی قسم کا خوف اور غم نہ ہوگا۔“ مسائل : 1۔ اولیاء اللہ قیامت کے دن غمزدہ نہیں ہوں گے۔ 2۔ اولیاء اللہ صاحب ایمان ہوتے ہیں۔ 3۔ اولیاء اللہ پر ہیز گاری اختیار کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ کے ولی کے لیے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ 6۔ اللہ کا تابع دار ہونے میں بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اولیاء اللہ کا مقام : 1۔ اولیاء اللہ پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ (یونس :62) 2۔ اولیاء اللہ کے لیے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ (یونس :64) 3۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ (البقرۃ :257) 4۔ اللہ اپنے دوستوں کی مہمان نوازی فرمائے گا۔ ( حٰم السجدۃ:32)