وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
” اور نہیں ہوتے آپ کسی حالت میں اور نہ اس کی طرف سے آنے والے قرآن میں سے کچھ تلاوت کرتے ہیں اور نہ تم کوئی عمل کرتے ہو مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں، جب تم اس میں شروع ہوتے ہو اور تیرے رب سے کوئی ذرہ بھر چیز نہ زمین میں پوشیدہ ہوتی ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی مگر واضح کتاب میں موجود ہے۔“ (٦١)
فہم القرآن : ربط کلام : منکرین اور مشرکین کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی اور عقیدہ توحید کی وجہ سے رسول کریم (ﷺ) کو ایذا دینے پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے منکرین حق کو انتباہ کیا گیا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کی ڈھارس بندھانے منکرین اور مشرکین کو انتباہ کرنے کے ساتھ آپ کی محنت اور مشن کو خراج تحسین سے نوازا جارہا ہے۔ کہ اے رسول (ﷺ) ! آپ کا رات کو اٹھ اٹھ کر قرآن پڑھنا۔ دن کو اس کی تبلیغ کرنا اور اس کے رد عمل میں آپ کا غم زدہ ہونا ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔ آپ کے شب وروز کا ایک ایک لمحہ ہمارے سامنے ہے۔ سورۃ الشعراء میں نبی کریم (ﷺ) کو بڑے دلر با انداز میں اطمینان دلایا گیا ہے ﴿الَّذِی یَرَاک حینَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِینَ۔ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ﴾ [ الشعراء : 218تا220] ” آپ ہر حال میں ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ رات کی تاریکیوں میں اپنے رب کے حضور قیام کرتے اور سر بسجود ہوتے ہیں تو اس وقت بھی آپ کا رب آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔“ جب آپ اس کی جناب میں آہ زاریاں کرتے ہیں تو وہ سن رہا ہوتا ہے۔ اے نبی آپ کا رب آپ کو ہی نہیں بلکہ آپ کے دشمنوں کو بھی دیکھ رہا ہے کہ وہ اس کی توحید کی دشمنی میں آکر آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو مخاطب کیا کہ اے لوگو! تم جیسے بھی عمل کرتے ہو یاد رکھو! ہم سے تمہارا کوئی عمل اور حرکت و سکوت پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے بعد پھر واحد مخاطب کی ضمیر لا کر رسول محترم (ﷺ) کوتسلی دی گئی کہ آپ کے رب سے زمین و آسمانوں کا کوئی ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں بے شک کوئی چیزذرہ سے چھوٹی ہویا بڑی اللہ تعالیٰ کے احاطہ نظر سے باہر نہیں ہے اس نے ہر چیز کی ابتدا، اور انتہا واضح طور پر لوح محفوظ میں عیاں کر رکھی ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی حالت پر گواہ ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ 3۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں درج ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا اور اس پر نگران ہے : 1۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس :61) 2۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس :79) 3۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء :17) 4۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء :32) 5۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء :39) 6۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان :34) 7۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ:32) 8۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود :5)