سورة التوبہ - آیت 115

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اللہ کبھی ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اسے گمراہ کرے، یہاں تک کہ ان کے لیے وہ چیزیں واضح کر دے جن سے انھیں بچنا چاہیے۔ بے شک اللہ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔“ (١١٥) ”

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 115 سے 116) ربط کلام : پچھلی دو آیات کے مفہوم کا تتمہ اور ایک غلط فہمی کا ازالہ : اس سے پہلے دو آیات میں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں صحابہ کرام (رض) کے دلوں میں یہ خدشہ اور غلط فہمی پیدا ہوئی کہ جو صحابہ اپنے مشرک عزیز و اقرباء کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ اس شبہ کے ازالہ کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان کی ہدایت پا جانے کے بعد گمراہ نہیں کرتا اور نہ ہی ہدایت واضح کرنے سے پہلے لوگوں کی گمراہی پر گرفت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اور زمین و آسمان میں اسی کی حقیقی اور دائمی بادشاہی ہے۔ وہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوسکتا۔ یہاں ولی اور نصیر کی صفات ذکر کر کے واضح کیا ہے کہ مشرکوں کے ساتھ قلبی تعلق یا کسی مفاد کی بنیاد پر ان سے روحانی رشتہ استوار نہ کرو۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور خیر خواہی نہ کرے تو زمین و آسمان میں کوئی بھی تمہاری نصرت و مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ یہ بات پہلے بھی واضح کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت دیتا یا گمراہ کرتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہدایت اور گمراہی بھی اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس طرح زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا ربِّ کریم سے ہدایت کی طلب اور گمراہی سے بچنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے گمراہ رہنے دیتا ہے اور جو ہدایت کا طالب ہے اور اس کی جستجو کرتا ہے اسے وہ ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ جو ہدایت یافتہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کبھی گمراہ نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اسے ہدایت پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ (اللَّہُمَّ اہْدِنِی فیمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِی فیمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِی فیمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ) [ رواہ ابوداؤد : باب القنوت فی الوتر] ” اے اللہ مجھے ان کے ساتھ ہدایت دے جن کو تو نے ہدایت دی، اور مجھے عافیت دے ان میں جن کو تو نے عافیت دی اور کارساز بن میرا ان میں جن کی تو نے کارسازی کی اور جو کچھ مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے ہدایت اور گمراہی کے راستے واضح کردیے ہیں۔ 4۔ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے۔ 5۔ موت و حیات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک ہے : 1۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبۃ:116) 2۔ اللہ ہی معبود برحق ہے وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ (الحج :6) 3۔ اللہ ہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی تمھارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (آل عمران :156) 4۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الاعراف :158) 5۔ اللہ وہ ذات ہے جو زندہ کرتی اور مارتی ہے دن اور رات کا مختلف ہونا اسی کے حکم سے ہے (المومنون :80) 6۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا رب ہے۔ (الدخان :8) 7۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الحدید :2)